جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا کہنا ہے کہ یورپ کو تحقیق اور ترقی کے شعبوں میں چین کے ساتھ تعاون منقطع نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم ان کے مطابق املاک دانش کا تحفظ اب بھی ایک اہم چیلنج بنا ہوا ہے۔
جلد ہی سبکدوش ہونے والی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے 17 نومبر بدھ کے روز خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین کے ساتھ کشیدگی کے باوجود، جرمنی اور یورپ کے لیے تحقیق و ترقی کے شعبے میں چینی اداروں کے ساتھ تعاون کی کافی اہمیت ہے۔
میرکل نے کہا کہ چین کی جانب سے جرمن اداروں میں جاسوسی اور ٹیکنالوجی کی چوری جیسے امور پر خدشات کے باوجود، چین سائنس اور صنعت کے شعبے میں ایک اہم شراکت دار ہے۔ انہوں نے کہا، ”ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میرے خیال سے پوری طرح سے رابطہ یا تعاون منقطع کرنا درست نہیں ہو گا، بلکہ یہ ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔”
کوانٹم کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی سند یافتہ انگیلا میرکل نے کہا، ”آخر کار، چینی سائنسدان بھی بین الاقوامی اشاعتی نظام کا حصہ ہیں اور اس لیے ان کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔”
ایسے وقت جب انگیلا میرکل چانسلر کے عہدے سے سبکدوش ہونے والی ہیں، چین اور مغربی ممالک کے درمیان فائیو جی نیٹ ورکس اور سیمی کنڈکٹرز جیسی اہم ٹیکنالوجی کے حوالے سے مسابقہ آرائی بڑھتی جا رہی ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں ہی امریکا اور یورپی یونین کی ‘ٹریڈ اینڈ ٹیکنالوجی کونسل’ (ٹی ٹی سی) نے ایک میٹنگ کی تھی اور کہا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی قیادت میں ٹیکنالوجی کے مسائل، سیمی کنڈکٹرز کی محفوظ سپلائی اور چین کے بڑھتے غلبے کا مقابلہ کرنے کے لیے، کثیر الجہتی بنیادوں پر، ٹرانس اٹلانٹک تعلقات پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
بات چیت کے دوران انگیلا میرکل نے اعتراف کیا کہ چونکہ حالیہ برسوں میں چین کا اثر و رسوخ کافی بڑھ گیا ہے، اس لیے جرمنی کو اپنی بعض شراکت داریوں پر نظر ثانی بھی کرنا پڑی۔
ان کا کہنا تھا، ”شاید ابتدائی طور پر تعاون کی بعض شراکت داریوں کے حوالے سے ہمارا جو طریقہ کار تھا، اس کے تعلق سے ہماری فہم کم تھی” اور اب ان امور پر زیادہ احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔ ”ان دنوں ہم چیزوں کو زیادہ قریب سے دیکھتے ہیں، اور ایسا بجا طور پر کرتے ہیں۔”
چانسلر میرکل نے کہا کہ جہاں تک اہم بنیادی ڈھانچے کے تحفظ کی بات ہے تو اس حوالے سے معیار کو بلند رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ املاک دانش اور پیٹنٹ جیسے معاملات پر جرمنی بیجنگ کے ساتھ مسلسل بات چیت کر رہا ہے اور یہ، ”جرمنی میں چینی طلبہ اور چین میں کام کرنے والے جرمن کاروباری اداروں کے حوالے سے بھی ہے۔”
انہوں نے تاہم کہا کہ مغرب کو تنوع اور جدت کے شعبے میں اپنی کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ”اس وقت، کوانٹم کمپیوٹرز اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں، یورپ میں ایسا نہیں ہو رہا ہے اور چین اور امریکا بہت سے شعبوں میں کہیں زیادہ بہتر ہیں۔”