سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کی جانب سے تشویش کے اظہار کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے ان کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر انوکھی کٹوتی کی مذمت کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری کی زیر صدارت کمیشن کے آن لائن اجلاس کے شرکا نے ایچ ایس سی کے بجٹ میں کمی سے متعلق حکومت کے اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں کمی کی تجویز گزشتہ دو سالوں میں تعلیمی شعبہ جات میں بہتری کے لیے کیے جانے اقدامات کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے حکومت نے ایچ ایس سی کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ایچ ایس سی کی جانب سے تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی کے لیے ایک کھرب 4 ارب روپے کے بجٹ کا مطالبہ کیا تھا۔
خیال رہے 30 ارب کا بجٹ رواں مالی سال کے 66 ارب روپے کے 45 فیصد کے بجٹ سے بھی کم ہے۔دوسری جانب سے سرکاری جامعات کے وی سیز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایچ ایس سی کی جانب سے کی گئے ڈیمانڈ کے مطابق فنڈز فراہم کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہائر ایجوکیشن کمیشن آگے کام نہیں کر پائےگا۔
وائس چانسلرز کی تشویش کے بعد کمیشن نے متفقہ طور پر حکومت سے فیصلہ واپس لینے اور ہائر ایجوکیشن سیکٹر کی واجب الادا رقم ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ فنڈز میں کٹوتی اداروں، جامعات کے پروگرامز، تدریسی عملے کی برطرفی، تحقیقاتی منصوبوں کے خاتمے اور اعلیٰ تعلیم سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں سمیت دیگر سنگین نتائج کا سبب بنے گی۔
ایچ ای سی کے مطابق، وزارت خزانہ نے ایک کھرب 4 ارب 9 کروڑ روپے کی معقول طلب کے مقابلے میں ہائر ایجوکیشن کے مسلسل گرانٹ کے لیے انڈیکٹو بجٹ سیلنگ (آئی بی سی ) کے صرف 30 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ جامعات ہائر ایجوکیشن کے لیے مجموعی جی ڈی پی کے ایک فیصد کا مطالبہ کرتی ہیں، لیکن تجویز کردہ رقم جی ڈی پی کے 0.04 فیصد ہے جوکہ پہلے سے مشکلات کا شکار ہائر ایجوکیشن کے شعبے میں مزید خرابی کا سبب بنے گا۔
اجلاس مزید کہا گیا کہ اس تجویز کے بعد جامعات کے لیے تنخواہوں، پینشن اور دیگرضروریات کے لیے رقم ادا کرنا مشکمل ہوجائے گا۔
کمیشن کے اراکین کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے موجودہ مالی حالات پر فکر مند ہیں، لیکن ہائر ایجوکیشن سیکٹر کو پہلے ہی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور بجٹ میں اس کا کم از کم مطلوبہ حصہ کبھی نہیں ملا۔
ان کا کہنا تھاکہ بجٹ میں توسیع کی ضرورت کو محسوس کیے بغیر نئے ادارے چارٹرڈ کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم تک رسائی بڑھانا ہر حکومت کا یکساں ایجنڈا رہا ہے لیکن مستحکم مالی تعاون کے بغیر اس پر عمل درآمد نا ممکن ہے۔
اجلاس کے شرکا کا کہنا تھا کہ اس کے بعد سرکاری جامعات کے پاس طلبا سے ان کی استطاعت سے زیادہ فیس لینے کے علاوہ کو راستہ نہیں بچتا۔
گزشتہ دنوں وائس چانسلرز کے اجلاس میں شرکا کو بریفنگ دی گئی جس میں انہوں نے واضح کیا کہ بجٹ میں کٹوتی ہائر ایجوکیشن کے شعبے کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کے لیے کی گئی۔