پنجاب میں رات گئے وفاقی حکومت کے اعلامیے پر گورنر عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے برطرف کرنے کے بعد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان نے سپریم کورٹ سے آئین و قانون کی ’کھلی خلاف ورزی‘ پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک بیان میں عمران خان نے اعلیٰ عدلیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ’پنجاب میں آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی پر فوری طور پر نوٹس لیں‘۔
ان کا یہ بیان وفاقی حکومت کی اعلامیے کے بعد سامنے آیا، یہ اعلامیہ صدر عارف علوی کی جانب سے گورنر پنجاب کو ہٹانے کی سمری کی مسترد کرنے کے بعد جاری کیا گیا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ ’امپورٹڈ حکومت آئینی افراتفری پھیلا کر پنجاب میں عدم استحکام کو فروغ دے رہی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ پہلے کٹھ پتلی حکمراں وزیر اعلیٰ کے خفیہ انتخاب کے ذریعے صوبے پر مسلط ہوئے، اب تمام تر آئینی ضرورتوں کو پسِ پردہ رکھتے ہوئے صدر کے عہدے کی تذلیل کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم نے گورنر پنجاب کو عہدے سے ہٹانے کے عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے شرمناک کوشش قرار دیا، کیونکہ وہ آئین کی حفاظت کرنے پر بضد تھے۔
عمران خان نے کہا کہ پنجاب میں آئین کی ’کھلی خلاف ورزی‘ پر خاموشی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے لہٰذا سپریم کورٹ کو معاملے کی حساسیت دیکھتے ہوئے ازخود نوٹس لینا چاہیے۔
برطرفی کا اعلامیہ غیر قانونی قرار
دریں اثنا عمر سرفراز چیمہ نے انہیں عہدے سے برطرف کرنے کے حوالے سے کابینہ ڈویژن کا اعلامیہ مسترد کرتے ہوئے اسے ’غیر قانونی‘ قرار دیا ہے۔ایک ٹوئٹ میں عمر سرفراز چیمہ کا کہنا تھا کہ صدر نے ’غیر معمولی‘ حالات کے پیشِ نظر سمری مسترد کی تھی اس کے باوجود کابینہ ڈویژن نے ’غیر قانونی‘ نوٹی فکیشن جاری کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ آئینی ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں اور مستقبل کے لائحہ عمل سے جلد آگاہ کریں گے۔
حمزہ شہباز کا انتخاب اور حلف برداری
گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی برطرفی، صوبے میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی حلف برداری میں تاخیر کے پیچھے طویل کہانی ہے۔
حمزہ شہباز 16 اپریل کو وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر منتخب ہوئے تھے، اس دوران پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں تشدد اور افراتفری کے مناظر دیکھے گئے تھے، حتیٰ کہ ان کی تقریبِ حلف برداری بھی کئی ہفتوں تک تاخیر کا شکار رہی، کیونکہ گورنر نے انتخاب پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے صدر عارف علوی کو گورنر کی غیر موجودگی میں حلف لینے کے لیے ایک نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی، تاہم صدر کی جانب سے عدالتی حکم پر عمل کرنے میں تاخیر کے باعث حمزہ شہباز نے 25 اپریل کو دوبارہ عدالت سے رجوع کیا تھا۔
مذکورہ درخواست میں انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ وہ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو ان سے حلف لینے کی ہدایت کریں، جس کے بعد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے ہدایت کی تھی کہ گورنر پنجاب عمر چیمہ، حمزہ شہباز کی حلف برداری کا عمل 28 اپریل تک مکمل کریں گے۔
بعد ازاں جب صدر اور گورنر دونوں عدالت احکامات پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہوگئے تھے تو لاہور ہائی کورٹ نے تیسری بار معاملے میں مداخلت کی اور اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو ہدایت جاری کی کہ وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر حمزہ شہباز کا حلف لیں۔
حمزہ شہباز کی تقریب حلف برداری سے قبل گورنر عمر چیمہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ حمزہ شہباز کے پیش رو عثمان بزدار کا استعفیٰ مسترد کرتے ہیں۔
عثمان بزدار کی جانب سے 28 مارچ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا گیا تھا، گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ ’آئینی طور پر درست نہیں‘ قرار دیا تھا کیونکہ عثمان بزدار نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا، لیکن عمر چیمہ کے پیشرو چوہدری سرور نے اسے قبول کر لیا تھا۔
بعدازاں عمر چیمہ نے حمزہ شہباز کو ’جعلی وزیر اعلیٰ کہتے ہوئے ان کی حلف برداری کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا۔
پی ٹی آئی نے حمزہ کے انتخاب کو لاہور ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کر رکھا ہے۔
گورنر پنجاب کی برطرفی کی سمری
واقعات کے اس سلسلے نے صوبے کو آئینی بحران کی طرف دھکیل دیا تھا، ان رپورٹس کے ساتھ حمزہ کے والد شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے ہٹانے کا ارادہ رکھتی تھی۔
بالآخر وزیر اعظم شہباز نے 17 اپریل کو چیمہ کی برطرفی کی سمری صدر کو بھجوائی تھی جبکہ عمر چیمہ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعظم کے پاس انہیں برطرف کرنے کا اختیار نہیں اور صرف صدر ہی ایسا کر سکتے ہیں۔
اس سمری میں وزیراعظم شہباز شریف نے گورنر پنجاب کے لیے پیپلز پارٹی کے مخدوم احمد محمود کا نام تجویز کیا تھا۔
تاہم جب صدر علوی نے اس سمری کو بغیر کسی فیصلے کے 15 دن تک روک کر رکھا اور بعد ازاں مسترد کردیا، وزیراعظم نے یکم مئی کو عمر سرفراز چیمہ کی برطرفی اور بہاولپور سے مسلم لیگ (ن) کے وفادار بلیغ الرحمٰن کی تقرری کا مطالبہ کرتے ہوئے اس مشورے کی دوبارہ توثیق کی تھی۔
تاہم صدر نے دوسری سمری کو بھی مسترد کر دیا گیا تھا اور وزیر اعظم کو آگاہ کیا گیا تھا کہ گورنر کو ان کی منظوری کے بغیر نہیں ہٹایا جا سکتا اور وہ آئین کے آرٹیکل 101 کی شق 3 کے مطابق ’صدر کی خواہش تک گورنر عہدے پر فائز رہیں گے‘۔
انہوں نے لکھا کہ موجودہ گورنر کو ہٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ ان پر بدانتظامی کا کوئی الزام ہے نہ ہی کسی عدالت کی طرف سے انہیں سزا دی گئی اور نہ ہی وہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔
پی ٹی آئی کا ماننا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 48 (2) کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 101 (3) کے لحاظ سے واضح ہے کہ ’صدر کسی بھی معاملے میں اپنی صوابدید پر کام کرے گا، آئین نے اسے ایسا کرنے کا اختیار دیا ہے‘۔
گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے بھی آرٹیکل 101 (3) اور 48 (2) کا سہارا لیا، وہ مذکورہ آرٹیکلز کا حوالہ متعدد ٹوئٹس میں دے چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے مشورے پر خود کار عمل درآمد گورنر کو عہدے سے ہٹانے کے بجائے، صدر کے معاملے پر کارروائی کے لیے مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد ہوتا ہے۔
وفاقی حکومت کے نوٹی فکیشن میں یہ بھی بتایا گیا کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر آئین کے آرٹیکل 104 کے مطابق موجودہ گورنر کے تقرر تک قائم مقام گورنر کے فرائض سرانجام دیں گے۔
اس پیش رفت سے نہ صرف گورنر ہاؤس بلکہ پنجاب اسمبلی کی صورتحال بھی بدل جائے گی کیونکہ اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کو قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑے گا جبکہ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کا جھکاؤ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے۔
خیال رہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر دونوں کو ایوان میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔
عُمر چیمہ کو حملے کا خدشہ
ادھر وزیر داخلہ ثنااللہ کے انتباہ کے بعد عمر سرفراز چیمہ نے ٹوئٹر پر اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’سسیلین مافیا‘ غیر آئینی سمریوں اور نوٹی فکیشنز کے ساتھ ان کے دفتر پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
رانا ثنا اللہ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ گورنر باعزت طور پر گھر چلے جائیں اور صدر عارف علوی اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کسی بھی ایسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں جو آئندہ دنوں میں عوامی غصے کا باعث بنے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’صدر، وزیر اعظم کے مشورے پر عمل درآمد کے پابند ہیں اور کوئی بھی انحراف آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا‘۔
بعد میں رات گئے ایک اور ٹوئٹ میں عمر سرفراز چیمہ نے لکھا کہ ’اٹارنی جنرل اور وزیر داخلہ کے دھمکی آمیز اور اشتعال انگیز بیانات خانہ جنگی کا باعث بن سکتے ہیں، دونوں نے ثابت کر دیا کہ وہ درباری اور رائے ونڈ محل کے ٹھگ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب گورنر ہاؤس کو یرغمال بنایا گیا تھا تو حالات پر قابو پالیا تھا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان پر دوبارہ حملہ کیا گیا تو نتیجہ مختلف ہوگا اور خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔عمر چیمہ نے مزید کہا کہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ، اٹارنی جنرل اور پنجاب کے ’غیر آئینی‘ وزیر اعلیٰ ان حالات کے ذمہ دار ہوں گے۔