وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ عمران خان کو کسی سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ انہیں ان کے کرپشن کے احتساب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، 75سالوں میں لوگوں نے یہ ریڈ لائن عبور نہیں کی لیکن گزشتہ روز پی ٹی آئی نے بہت سی ریڈ لائن عبور کر ڈالیں۔
احسن اقبال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو ملک کو یرغمال بنانے نہیں دیا جائے گا اور اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کو غلط گرفتار کیا گیا ہے تو وہ عدالت میں اپنی معصومیت ثابت کر سکتے ہیں جیسے ہم نے کیا، ہم نے عدالت میں اپنی معصومیت ثابت کی، اپوزیشن کے تمام رہنماؤں نے عدالت میں مقدمات کا سامنا کیا لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ لوگوں کو اشتعال دلائیں، ملک میں تباہی پھیلائیں، معیشت کو نقصان پہنچائیں اور عالمی سطح پر ملک کا غلط تشخص اجاگر کریں۔
انہوں نے کہا کہ میں بس یہ وضاحت کرنا چاہتا تھا کہ عمران خان کو کسی سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا گیا، انہیں ان کے کرپشن کے احتساب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ہم سب اس کے شاہد ہیں کیونکہ کابینہ کے سیکریٹری نے گواہی دی تھی کہ انہوں نے برطانیہ کے حکام کو رقم کی منتقلی کے لیے معاہدہ پیش کیا تھا، وہ کبھی کابینہ کو نہیں دکھایا گیا، میٹنگ مکمل ہونے کے بعد عمران خان نے محض ایک بند لفافہ دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم معاہدہ ہے اور کابینہ کو اس کی منظوری دینی چاہیے اور جب کابینہ کے کچھ وزرا نے سوال کیا کہ کم از کم ہم کو دکھایا تو جائے کہ یہ کیسا معاہدہ ہے تو انہیں عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔
مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ اس طرح سے غیرشفاف انداز میں عمران خان نے یہ فراڈ کیا اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کا احتساب کیا جائے، وہ احتساب جس کا اس ملک میں سب کے لیے مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان اس ملک کے 22کروڑ عوام کے احتساب پر یقین رکھتے ہیں لیکن اپنے اور اپنی جماعت کے لیے نہیں، یہ جمہوریت نہیں، یہ قانون کی عملداری نہیں، یہ فاشزم ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے سیکیورٹی ایجنسیاں اپنی رپورٹ پیش کریں گی اور وہ جو بھی تجویز دیں گی، حکومت اسی حساب سے کام کرے گی لیکن میں واضح کردوں کہ ہمارے ملک میں دوہرے معیار نہیں ہو سکتے کہ کچھ لوگوں کو پولیس چوکی کو جلانے پر بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور کچھ لوگوں کو اس سے زیادہ سنگین جرائم پر بھی کچھ نہ کہا جائے، اس ملک میں ایک ہی قانون ہو گا، جو بھی قانون کو ہاتھ میں لے گا اس سے نمٹا جائے گا، گزشتہ روز پی ٹی آئی کے حامیوں کے اقدامات حکومت کے نہیں ریاست اور اس ملک کے عوام کے خلاف تھے کیونکہ انہوں نے اہم ریاستی اداروں، تنصیبات اور اسکولوں کو نشانہ بنایا، یہ ناقابل قبول ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان دہشت گردوں کے خلاف عظیم جنگ لڑی جو ہمارے اسکولوں کو آگ لگاتے تھے، جو ہماری لڑکیوں کو اسکولوں میں جانے سے روکتے تھے اور آج پی ٹی آئی وہی کام کررہی ہے، وہ اسکول جلا رہے ہیں اور ہمارے بچوں کو تعلیم کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں، ہم اس طرح کے رویے کی اجازت نہیں دے سکتے اور ان واقعات میں ملوث تمام افراد کی نیب تحقیقات کرے گی۔
حساس ریاستی اداروں پر حملے کے حوالے سے سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ 75سالوں میں لوگوں نے یہ ریڈ لائن عبور نہیں کی، جنرل ضیا کے مارشل لا میں پیپلز پارٹی نے بہت تکالیف اور زیادتیوں کا سامنا کیا لیکن آپ نے پیپلز پارٹی کے ورکرز کو ریڈ لائن عبور کرتے نہیں دیکھا ہو گا، مشرف کے مارشل لا کے دوران مسلم لیگ(ن) کو بدترین زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا لیکن کسی نے بھی وہ ریڈ لائن عبور نہیں، کیونکہ بالآخر یہ ہمارے ریاستی ادارے ہیں اور اگر ہم ان کو کمزور کرتے ہیں تو ہم غیرریاستی عناصر کو مضبوط کرتے ہیں جو پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو پاکستان کو اپنے ریاستی اداروں کے تحفظ اور ان کا احترام کرنے کی ضرورت ہے اور گزشتہ روز پی ٹی آئی نے بہت سی ریڈ لائن عبور کر ڈالیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے یہ تمام واقعات صوبوں میں پیش آئے تو صوبائی حکومتیں اور صوبے کے قانون نافذ کرنے والے ادارے صورتحال کا جائزہ لے رہی ہیں اور ان واقعات میں ملوث عناصر کی شناخت کرکے انہیں قانون کے شکنجے میں جکڑ رہی ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ یہ مظاہرے پہلے سے طے شدہ اہداف کے تحت کیے گئے جن کی منصوبہ بندی عمران خان نے خود کی تھی، یہ مظاہرے اور پرتشدد اقدامات کسی بھی طرح یہ ظاہر نہیں کرتے کہ انہیں ان کے اس مقصد کے لیے عوام کی حمایت حاصل تھی، یہ سب پی ٹی آئی ورکرز اور کارکنان تھے جنہیں یہ ذمے داری سونپی گئی تھی، ان کے پنجاب اسمبلی کے لیے ٹکٹ حاصل کرنے والوں کو کہا گیا کہ وہ لوگوں کو لے کر آئیں تو یہ عمران خان کی زیر نگرانی حکومتی عمارتوں اور ریاستی تنصیبات پر طے شدہ منصوبے کے تحت کیا گیا حملہ تھا۔
انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ واقعی احتساب اور قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں تو مثال قائم کریں، اگر آپ یقین رکھتے ہیں کہ یہ کیس بدنیتی پر مبنی ہے، یہ مقدمہ درست نہیں ہے تو انہیں عدالت رہا کردے گی لیکن اگر اب سے جرم سرزد ہوا ہے تو اس طرح کے پرتشدد اقدامات کے ذریعے آپ ان کی کرپشن کا تحفظ نہیں کر سکتے۔