وزیراعظم عمران خان نے ملک میں مہنگائی میں اضافہ تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ کوئی شک نہیں کہ حالات برے ہیں لیکن اسمال اور میڈم کاروبار کے لیے آسانیاں پیدا کر لی ہیں۔
اسلام آباد میں نیشنل اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز پالیسی 2021 کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس شعبے کو مراعات اور اہمیت دے رہے ہیں، جس پر بدقسمتی سے پہلے کبھی توجہ نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ شعبہ کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ روزگار دیتا ہے اور دولت بڑھانے میں اس کا بڑا حصہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ شعبہ وہ حصہ نہیں ڈالتا جو ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس ایم ای کو بینک قرضے نہیں دیتے اور دیگر مشکلات ہوتی ہیں اور اب سب سے بڑی رکاؤٹ دور کرکے آسانیاں پیدا کردی ہیں تاکہ وہ کاروبار کرسکیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ امریکا کے اندر ٹیکنالوجی کا انقلاب سیلیکون ویلی سے آیا جہاں کسی کے پاس کوئی آئیڈیا آتا تو اس کی مدد کی جاتی ہے اور اس طرح نوجوان ارب پتی بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کے جنون کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کو سہولیات دے، ایس ایم ای میں تعاون سے اسٹارٹ اپ کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹارٹ اپس میں باہر سے پاکستان میں تقریباً 500ملین ڈالر کی سرمایہ کاری آئی ہے، پہلے زیرو تھی لیکن اپنی درست سمت میں گامزن ہے، ضروری ہے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کی مدد کریں اور ریاست اپنا کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ جب میں اسکول میں تھا تو اس وقت پاکستان سارے خطے میں ایشیا میں سب سے تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، ہمیں ابھی یاد ہے کہ ہمارے اسکولوں میں ملائیشیا سے شہزادے پڑھنے آتے تھے، مشرق وسطیٰ سے سارے لوگ ہماری جامعات میں پڑھتے تھے، میڈیکل کالجوں میں آتے تھے اور ہماری ڈگریز پوری دنیا میں مانی جاتی تھیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک کی اہمیت دیکھنی ہوتو جب 1960 کی دہائی میں صدر جب امریکا گیا تو ان کا صدر استقبال کرنے کے لیے ایئرپورٹ میں آیا، ایشیا میں ملائیشیا اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں نے پاکستان آکر ہمارا ماڈل دیکھا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ یہ ملک اتنی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنا راستہ کھو بیٹھے ہیں، اس وقت ہماری بیوروکریسی سارے خطے میں مانی جاتی تھی اور اعلیٰ معیار کی سول سروس تھی لیکن آہستہ آہستہ ہم نے غلط فیصلے کیے تو بدقسمتی سے ہم نیچے جانا شروع ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بیوکریسی کا سب سے اہم امتحان مشرقی اور مغربی پاکستان میں تھا لیکن بدقسمتی سے سیاسی مداخلت ہوئی، میرٹ ختم ہوا، جس کے باعث بیوروکریسی بجائے رکاؤٹیں ختم کرنے کے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی ہوگئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے جو بھی انٹرپرائز جیسے زراعت یا صنعت ہو ،جس سے بھی روزگار پیدا ہوتا ہے اگر اس پر رکاؤٹ ڈالی گئی تو اس ادارے کے خلاف کارروائی کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ہمیں شرم آتی ہے کہ دنیا میں 22 کروڑ آبادی کی اتنی کم برآمدات کرتے ہیں، سنگاپور جس کی آبادی 50 لاکھ ہے اور ایسے چھوٹے ملک کی برآمدات 300 ارب ڈالر ہیں، ہمیں حکومت ملی تو 24 ارب کی برآمدات تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اب برآمدات پر زور ڈالنا ہے اور حکومت سمیت سب ایک طرف جائیں گے کہ ہمیں دولت پیدا کرنی ہے اور اس میں ایس ایم ایز کا بہت بڑا کردار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی، فیصل آباد میں صنعتیں ہیں لیکن گجرانوالا، گجرات اور سیالکوٹ میں قدرتی طور پر اسمال اور میڈیم انڈسٹریز ہیں اور تھوڑی مدد کریں تو یہ بھی ہمارے ملک کی دولت میں اضافہ کرسکتی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ قواعد بنائے گئے جو اسمال اور میڈیم انڈسٹری کا راستہ روکنے کا سبب بن گئے ہیں، ہر قسم کی ریگولیشن لائی گئیں، کبھی انسپیکشن ہوتی لیکن بڑا آدمی تو برداشت کرسکتا ہے اور بڑے کاروباری آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کے پاس طاقت ہوتی ہے لیکن جو کاروبار میں نیا آتا ہے تو اس کے لیے یہ رکاؤٹ بن جاتی تاہم ہم نے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پالیسی سے آنے والے دنوں میں پاکستان کو پوری طرح اندازہ ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں کتنا فائدہ ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمیں اور بھی مسئلے حل کرنے اور مزید مسئلے سامنے آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی پر عمل درآمد کے دوران جو رکاؤٹیں آئیں گے اس کے لیے اجلاس کی سربراہی میں خود کروں گا اور تمام مسائل اور رکاؤٹیں دور کرتے جائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت کو جتنے چیلنجز ملے تھے اتنے کسی حکومت کو نہیں ملے کیونکہ میں پاکستان کے ساتھ بڑا ہوا ہوں، ایک بعد دوسرا چیلنج کسی حکومت کو نہیں ملا، آتے ہی دیوالیہ ملک اس کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں تھے اور بھاگ کر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین نے بیرونی قرضوں کے لیے پیسے دیے تو ہم دیوالیہ کرنے سے بچ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیوالیہ کرتے تو روپیہ گرجاتا اور روپیہ گرتا تو مہنگائی ہوجاتی ہے، اس سے نکلے تو کووڈ آیا اور اس طرح کا بحران 100 سال میں ایک دفعہ آتا ہے اور کسی حکومت کو اس طرح کے بحران کا سامنا کسی حکومت نے نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد افغانستان کا بحران آیا جس کے نتیجے میں ان کی کرنسی گری تو انہوں نے پاکستان سے ڈالر خریدنا شروع کیا، ہمارے روپے پر پریشر پڑا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پھر اشیا کی قیمتوں میں ایک دم اضافہ ہوا اور سپلائی میں کمی آئی، پہلے افراط زر سے مہنگائی کو سنبھالا اور اس کے بعد کووڈ سے بچے تو اشیا کی قیمتیں اوپر گئیں تو مہنگائی آئی، جو پوری دنیا میں آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی ریکارڈ برآمدات ہیں، ریکارڈ ترسیلات زر ہوئیں، پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ ٹیکس وصولی ہوئی، حکومت میں آنے سے پہلے کہا تھا کہ ہدف ہے 8 ہزار ارب ٹیکس جمع کریں تو لوگوں نے بڑا مذاق اڑایا، 6 ہزار ارب کا ہدف پورا ہوا اور 5 سال میں 8 ارب کا سالانہ ہدف جمع کریں گے اور اس سے بھی آگے نکل جائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم آٹومیشن، ٹریک اینڈ ٹریس نظام لا رہے ہیں جو بڑے بڑے لوگ سیلز ٹیکس کی چوری کر رہے ہیں، نادرا کے ساتھ مل کر سوفٹ ویئر بنا رہے ہیں، یہ ہو نہیں سکتا کہ 22 کروڑ کے ملک میں صرف 20 لاکھ ٹیکس دیں، کوئی ملک اس طرح نہیں چل سکتا لیکن ہم یہ ہدف بھی حاصل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کسانوں کو مراعات دیں تو پاکستان میں گندم، گنا، مکئی اور چاول کی پاکستان میں ریکارڈ چار فصلیں ہوئی ہیں۔
عمران خان نے تسلیم کیا کہ حالات تو برے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے، پہلے افراط زر سے مہنگائی ہوئی، وہ ہماری وجہ سے نہیں ہوئی کیونکہ جب درآمدات زیادہ ہوتو روپے پر دباؤ پڑنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر مہنگائی سے بھی اشیا کی قیمتیں بڑھیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں موٹرسائیکل، گاڑیوں اور موبائلز کی ریکارڈ فروخت ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آج سے 50 سال پہلے مانچسٹر میں پاکستانی پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور وہاں ٹیکسٹائل انڈسٹری سنبھال لی، وہ یہاں سے گئے تھے اور انہیں ایک نظام نے موقع دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسی طرح آج ہم اپنے نظام میں اپنے لوگوں کو پوری اجازت دے رہے ہیں کہ وہ بھی پاکستان میں دولت بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔