کراچی کی ساری مشینری لے کر ابھی جائیں اور نسلہ ٹاور گرائیں، چیف جسٹس کا حکم

سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی کو شاہراہِ فیصل پر قائم رہائشی عمارت نسلہ ٹاور گرانے کے لیے شہر بھر کی مشینری استعمال کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر قائد میں تجاوزات سے متعلق مختلف کیسز کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے نسلہ ٹاور گرانے سے متعلق استفسار کیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا ہوا کمشنر صاحب، جو کام کہا تھا وہ ہوا یا نہیں؟‘

جس پر کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ ’ہمیں آپ سے رہنمائی درکار ہے‘۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور دوبارہ استفسار کیا کہ ’سیدھی بات کریں، بلڈنگ گرائی یا نہیں؟‘

کمشنر کراچی نے کہا کہ ’میری بات سنیں کچھ بتانا چاہتا ہوں‘۔

چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کی سرزنش کی اور ریمارکس دیے کہ ’آپ کا یہاں سے جیل جانے کا ارادہ ہے‘۔

بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی ہوگی، آپ کو معلوم ہے آپ کہاں کھڑے ہیں‘۔

اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’آپ مسلسل توہین عدالت کر رہے ہیں، کیا آپ کمشنر کہلانے کے لائق ہے؟‘

چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’یہ 18 گریڈ کا افسر ہے جو ایسی باتیں کر رہا ہے یہاں‘۔

انہوں نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ ’ابھی جائیں اور نسلہ ٹاور گرائیں، کراچی کی ساری مشینری لے کر جائیں اور عمارت گرانا شروع کردیں‘۔

علاوہ ازیں چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ ’تجوری ہائٹس بھی آج گرا کر رپورٹ پیش کریں‘۔

سول ایوی ایشن کی زمین پر کمرشل سرگرمیوں سے روک دیا

علاوہ ازیں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سول ایوی ایشن کی زمین پر قبضہ سے متعلق سماعت ہوئی جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی تاہم عدالت نے سول ایوی ایشن کی زمین پر بنائے گئے کلب کی سرگرمیاں فوری طور بند کرنے کا حکم دے دیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ سول ایوی ایشن کی زمین پر جعلی دستاویزات بنائے گئے تھے اور جعلی دستاویزات بنانے والوں کے خلاف دو مقدمات درج کرلیے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دو مقدمات میں 4 ملزمان کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ حکومت سندھ تو ان پرائیوٹ لوگوں کو سپورٹ کررہی جس کا قبضہ ہے، سول ایوی ایشن کو الاٹ کی گئی زمین صرف ایوی ایشن مقاصد کے لیے استعمال کی جائے۔

اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بورڈ آف ریونیو خود قبضہ گروپ بن گیا ہے، سرکاری زمین پر کلب بنایا ہوا ہے آپ نے کل کو اپنا گھر اور سوسائٹی بھی بنالیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سول ایوی ایشن کو دی گئی زمین اسی کے کام میں لائیں صرف۔

سول ایوی ایشن حکام نے بتایا کہ کلب او میس گورنمنٹ افسران کے لیے بنایا گیا ہے تاہم پرائیوٹ لوگوں کو بھی ممبر شپ دی گئی ہے، ہم کمرشل سرگرمیاں ختم کردیتے ہیں میس رہنے دیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ پیسہ بنانے میں لگ گئے ہیں کام سے توجہ ہٹ گئی ہے آپ سوچتے ہوں گے کلب کا یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے۔

جس پر سول ایوی ایشن حکام نے کہا کہ ’آپ کلب بند کرنے کا آرڈر کردیں ہم بند کردیں گے۔

بعدازاں عدالت نے سول ایوی ایشن کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کرنے سے روک دیا اور ہدایت دی کہ سول ایوی ایشن کو دی گئی زمین صرف ایوی ایشن مقاصد کے لیے استعمال کی جائے۔

ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو تمام پارکس اور پلے گراؤنڈز بحال کرانے کا حکم

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پارکس اور پلے گراؤنڈز کی بحالی کا معاملہ بھی زیر سماعت آیا جس میں عدالت نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو تمام پارکس اور پلے گراؤنڈز بحال کرانے کا حکم دے دیا۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے پارکوں اور پلے گراؤنڈز سے تمام تعمیرات ختم کرانے کا حکم دیتے ہوئے پارکوں اور میدانوں کو بحال کرکے محفوظ بنانے کی ہدایت کی۔

سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پارکوں اور میدانوں میں داخلے کی کوئی فیس نہیں ہوگی اور کے ایم سی کے تمام پارکوں میں داخلہ فری کیا جائے جبکہ پارکس کی تزئین و آرائش اور نگرانی کو بھی یقینی بنایا جائے۔

عدالت عظمیٰ نے پارکوں میں مطلوبہ فرنیچر، لائٹس کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت دیتے ہوئے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب کو دو ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

پارک کی زمین پر رہائشی منصوبہ: ’سعید غنی کب عہدہ چھوڑیں گے‘

عدالت عظمیٰ نے بہادرآباد میں پارک کی زمین پر رہائشی پروجیکٹ کی تعمیر سے متعلق کیس میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور وزیر اطلاعات سعید غنی کو طلب کرلیا۔

دوران سماعت درخواست گزار امبر علی بھائی نے کہا کہ پارک پر کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کر دی گئی ہے۔

علاوہ ازیں مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ اس علاقے میں کچھ لوگوں کو وفاقی حکومت نے لیز دی تھی۔

درخواست گزار امبر علی بھائی نے کہا کہ پارک اور اسکول کی زمین پر شادی ہال اور پارکنگ بنادی گئی ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کراچی کوآپریٹیو ہائوسنگ سوسائٹی سے کوئی آیا ہے؟۔

علاوہ ازیں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ رفاہی پلاٹ پرائیویٹ لوگوں کو کیسے الاٹ کردیا گیا؟

تاہم تسلی بخش جواب نہ دینے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کی سرزنش کرتے ہوئے عدالت نے کراچی کو آپریٹیو سوسائٹی کو نوٹس جاری کردیا اور پلاٹ نمبر پی این ایس 21,23 بلاک سیون کی دستاویزات پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے سوسائٹی کا اوریجنل ماسٹر پلان بھی پیش کرنے کی ہدایت کی اور سوسائٹی کے چیئرمین اور سیکریٹری کو تمام دستاویزات کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ اس دران درخواست گزار کے وکیل راجا قاسط نے کہا کہ عدالتی نوٹس کے بعد بھی تعمیرات نہیں روکی گئیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ بلڈر کون ہے اس کا، کون بنارہا ہے؟

وکیل نے بتایا کہ محمد توفیق اور محمد سعید نامی بلڈرز نے عمارت تعمیر کی۔

عدالت نے ایس ایچ او نیو ٹاؤن کے ذرئعے بلڈر کو نوٹس تعمیل کرانے کا حکم دے دیا۔

اس دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے عمارت کی تصویر عدالت میں لہراتے ہوئے استفسار کیا کہ ’یہ کیا ہورہا ہے بتائیں، سعید غنی صاحب کہاں ہیں؟‘

چیف جسٹس نےریمارکس دیے کہ ’سعید غنی کہتے ہیں ایسی عمارتیں بنیں گی، بلائیں انہیں‘۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’سعید غنی کہتے ہیں عہدہ چھوڑ دوں گا مگر منہدم نہیں کروں گا۔

چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کب چھوڑیں گے وہ عہدہ یہ تو بتائیں؟۔

بعدازاں عدالت نے پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں