کراچی پریس کلب کے باہر شہریوں کا مظاہرہ، مقتول ناظم جوکھیو کیلئے انصاف کا مطالبہ

کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے باہر سول سوسائٹی کے اراکین نے مظاہرہ کرتے ہوئے مقتول ناظم جوکھیو کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

ناظم جوکھیو کو نومبر 2021 میں پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں قتل کیا گیا تھا۔

ایم پی اے جام اویس اور ان کے بھائی ایم این اے جام عبدالکریم سمیت کئی دیگر افراد کے خلاف ناظم جوکھیو کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ناظم جوکھیو کو مبینہ طور پر اس وقت قتل کیا گیا تھا جب انہوں نے ملزمان کے غیر ملکی مہمانوں کو تلور کے شکار سے روکا تھا۔

گزشتہ ہفتے پولیس نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرائی گئی حتمی چارج شیٹ سے دونوں اراکین اسمبلی کے ناموں کو نکال دیا تھا، جس کے بعد ان کے قتل کے مقدمے سے نکلنے کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے۔

کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کے دوران شرکا نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن میں مقتول کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اراکین اسمبلی کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال پر تنقید اور مذمت کی گئی تھی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرامت علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس سے بڑی ناانصافی نہیں دیکھی۔

نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان کے ناصر منصور کا کہنا تھا کہ احتجاج کے شرکا نے پیپلز پارٹی کی عوام دشمن اور سندھ دشمن پالیسیوں کے خلاف ‘عوامی ایف آئی آر’ درج کرادی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ناظم جوکھیو ملک کا پہلا شخص تھا جو ماحولیاتی تحفظ کے مقصد کے لیے شہید کیا گیا۔

احتجاج کے دوران ویمن ایکشن فورم (ڈبلیو اے ایف) کی عظمیٰ نورانی نے کہا کہ یہ گروپ مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو کے ساتھ کھڑا ہے۔

عظمیٰ نورانی کا کہنا تھا کہ جب ان کی ٹیم سے مقتول کی بیوہ سے ملاقات کی تو وہ بالکل اکیلی تھی، اس نے ٹیم کو بتایا کہ اس کے پاس ایک وقت کے کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے گروپ نے شیری جوکھیو کو مالی اور قانونی مدد فراہم کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ انہیں امید نہیں تھی کہ پیپلز پارٹی کسی بیوہ کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ناظم جوکھیو ہماری طرح انسانی حقوق کے محافظ تھے، کل ہم بھی کسی ایسے ہی انجام سے دوچار ہو سکتے ہیں، شیریں جوکھیو ‘دباؤ’ کی وجہ سے کیس سے پیچھے ہٹ گئی۔

وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر کا کہنا تھا کہ مظاہرین صرف پیپلز پارٹی کے خلاف نعرے لگانے کے لیے جمع نہیں ہونے بلکہ انصاف کا مطالبہ کرنے اور اصولوں کی بات کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ناظم جوکھیو بھی (پی پی پی) کا سپورٹر تھا، فرق صرف اتنا تھا کہ مقتول ایک عام آدمی تھا، یہ ایک طبقاتی جنگ ہے جس کے لیے ہم سڑکوں پر نکلے ہیں’۔

انہوں نے مزید کہا کہ مقدمے میں پروسیکیوٹر ملزم کے وکیل کی طرح کام کر رہا تھا جبکہ پولیس جسے کیس کی تفتیش کرنی تھی، وہ ملزمان کی مددگار اور معاون بن چکی۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے رکن اور ممتاز سماجی کارکن انیس ہارون نے میڈیا سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہو اور کیس کو عوام میں اجاگر کرے۔

انیس ہارون کا کہنا تھا کہ مظاہرین یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ صرف قانون کی بالادستی کو قبول کیا جائے گا، طاقت کی بالادستی کو نہیں۔

انہوں نے سندھ حکومت سے مقتول کے خاندان کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے قوانین اور آئین سب کے لیے یکساں ہے، جب آپ انصاف کے لیے کھڑے نہیں ہوں گے تو آپ ہم سے ووٹ کیسے مانگیں گے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں