کراچی میں ریڈ لائن منصوبے کیلئے سیکڑوں درخت کاٹ دیے گئے

اس وقت جب کراچی سمیت ملک بھر میں گرمی کی شدید لہر اور ہیٹ ویو کا سامنا ہے اور ماحول کو ٹھنڈا کرنے لیے سبز علاقوں کا تحفظ کرنے کے لیے آوازیں بلند ہو رہی ہیں تو دوسری طرف کنٹونمنٹ بورڈ ملیر (سی بی ایم) کی حدود میں ریڈ لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کا راستہ بنانے کے لیے سیکڑوں درختوں کو کاٹا جارہا ہے۔رپورٹ کے مطابق ذرائع نے کہا کہ ملیر میں منصوبے کی جگہ پر ایک ماہ پہلے کام شروع ہوا تھا اور گزشہ روز یعنی جمعرات کو ہوائی اڈے کی طرف جانے والے روڈ پر چیک پوسٹ 6 کے باہر بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی شروع کی گئی جس کی وجہ سے ٹریفک کے شدید مسائل پیش آئے جبکہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے غصے کا اظہار کیا۔ذرائع کا کہنا تھا کہ کاٹے جانے والی درختوں میں مقامی نیم اور غیر مقامی کونوکارپس شامل ہیں جو دو دہائی پہلے کنٹونمنٹ بورڈ کی درخواست پر محکمہ جنگلات کی طرف سے لگائے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بی آر ٹی منصوبے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے فنڈز فراہم کیے گئے ہیں اور منصوبے کے لیے 2020 میں سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) نے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا اور اس پر عملدرآمد کرنے والا ادارہ صوبائی حکومت کا محکمہ ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ ہے۔

مئی 2018 میں منصوبے کی ماحولیاتی جائزہ رپورٹ کی عوامی سماعت میں شیئر کی گئی معلومات کے مطابق بی آر ٹی روٹ پر ایک اندازے کے مطابق 23 ہزار 693 درخت موجود ہیں جن میں سے درخت کی بڑی تعداد کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جائے گا، باقی کچھ کو ٹرانسپلانٹ کیا جائے گا اور اگر محکمہ جنگلات کی تجویز پر عمل ہوا تو اس کے بعد تقریباً 300 دیسی درختوں کو بچایا جائے گا۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے سینئر ماہرین ماحولیات نے عوامی مفادات اور علاقہ مکینوں کی حساسیت کو قطعاً نظر انداز کرتے ہوئے حکومتی کارروائی کی مذمت کی ہے۔

ای آئی اے رپورٹ میں ٹریفک مینجمنٹ پلان کی کوئی تفصیلات شامل نہیں تھیں، تاہم منصوبے کی نگرانی کرنے والے عہدیدار نے مزید درخت لگا کر نقصان کی تلافی کا وعدہ کیا تھا۔

عوامی احتجاج

کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمنٹل اسٹڈیز کے سینئر استاد اور محقق پروفیسر ظفر اقبال شمس نے کہا کہ یہ ایک ایسا نقصان ہے جس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے، درخت ہمیں کئی طریقوں سے فائدہ پہنچاتے ہیں، سب سے اہم یہ کہ درخت فضائی آلودگی کو جذب کرکے، آکسیجن خارج کرکے، درجہ حرارت کو کم کرتے ہیں اور تنوع کو بہتر بناتے ہیں۔

سینئر ماہر ماحولیات رفیع الحق کا کہنا تھا کہ شہر میں پہلے ہی گرمی کی لہروں کا سامنا ہے، درختوں کی کٹائی کی مہم چلانے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا یہ کہ حکومت کو مہم شروع کرنے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر علاقے کے رہائشیوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، درخت خاموش ہیں لیکن جو لوگ انہیں ہر روز دیکھتے ہیں ان سے لگاؤ پیدا ہوتا ہے۔

ماہر ماحولیات ثاقب اعجاز حسین کا کہنا تھا کہ پروجیکٹ کے نگراں کو شجرکاری کے تحفظ کے لیے متبادل پر غور کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے اس منصوبے کو دی گئی منظوری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ منصوبے کا ایک حصہ نیا پودا لگانا تھا جسے پروجیکٹ کے آغاز سے بہت پہلے اگایا جانا چاہیے تھا۔

ای آئی اے رپورٹ کے مطابق منصوبے کی 23 کلومیٹر لمبی ریڈلائن نیو ایم اے جناح روڈ، یونیورسٹی روڈ، ملیر کنٹونمنٹ لنک روڈ اور ایم اے جناح ایونیو کے شمال مشرقی سیکٹر میں کراچی کو ضلع وسطی، شرقی اور ملیر کنٹونمنٹ کے ساتھ ملاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں