سیلاب زدگان کے لیے سندھ کے سرکاری اسکول اور کالج امدادی کیمپ کے طور پر استعمال کیے جارہے ہیں جہاں یہ بے آسرا خاندانوں کو چھت فراہم کر رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق اسکول اور کالج کی عمارت پر لگے بینرز پر لکھا ہے کہ ’یہ سرکاری کیمپ ہیں‘ لیکن وہاں کوئی بھی سرکاری اہلکار، پولیس یا رینجرز موجود نہیں ہے۔مختلف غیر سرکاری تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں ان لوگوں کا خیال رکھ رہی ہیں، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے خوراک اور ادویات جبکہ دعوت اسلامی کی جانب سے تازہ کھانا بھی تقسیم کیا جارہا ہے۔
وہاں موجود کچھ بچے ادھر اُدھر بھاگتے اور کھیلتے کوفتے نظر آئے، کچھ بچے اسکول کی عمارت میں موجود الیکٹرک لائٹ اور پنکھوں کے سوئچ بٹن کو کھول اور بند کر کے لطف اندوز ہوتے رہے جبکہ کچھ خواتین اکٹھے بیٹھی ہیں جبکہ ایک کلاس روم کے اندر 4 سے 5 خاندان کے افراد موجود ہیں۔
یہاں موجود تمام لوگ اپنے ضلع یا گاؤں کو چھوڑ کر آئے ہیں، ہر ایک شخص کی اپنی درد ناک کہانی ہے۔
گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول سچل گوٹھ میں سیلاب سے متاثرہ 750 سے 800 افراد رہائش پذیر ہیں۔
نوشہرو فیروز کے محراب پور سے تعلق رکھنے والے جازب علی نے میڈیا کو بتایا کہ ان کا علاقہ 12 فٹ پانی میں ڈوبا ہوا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ’میری بکریاں ڈوب گئیں، میری نئی جھونپڑی گر گئی ہے، چار ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی کپاس کی فصل بھی تباہ ہوگئی ہے‘۔
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے خالق زمان نے بتایا کہ ان کی ذخیرہ شدہ گندم ضائع ہوگئی ہے، ایک اور دیہاتی موج علی نے بتایا کہ سیلاب میں اُن کی تمام بھینسیں مر گئیں جس کی وجہ سے وہ بہت غمگین ہیں۔
بی بی حکیم زادی نے بتایا کہ اُن کے پاس صرف کچھ کپڑے موجود ہیں جنہیں وہ اپنے پیٹھ پر لاد کر اہلخانہ کے ساتھ یہاں آئی ہیں، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنی ساری زندگی گاؤں میں چھوڑ آئی ہوں، میں یہاں صرف زندہ رہنے کے لیے کھا رہی ہوں‘۔
یہاں کچھ ایسے بھی لوگ موجود تھے جو اسکول کی عمارتوں کے انتظامات سے بہت زیادہ خوش نظر آئے۔
قمبر شہداد کوٹ سے تعلق رکھنے والے مختیار علی چانڈیو نے بتایا کہ وہ کراچی کے ایک سرکاری اسکول کی عمارت میں تقریبا 200 لوگوں کے ساتھ مقیم ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’ میں اپنے خاندان اور پڑوسیوں کے ساتھ کئی روز سے یہاں موجود ہوں لیکن پچھلے 4 دنوں سے یہاں کوئی سرکاری اہلکار نہیں دیکھا البتہ یہاں کچھ جماعتوں کے رضاکار موجود ہیں۔
انہوں نے دعوت اسلامی کی فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (ایف جی آر ایف )کے رضاکاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ’یہ رضاکار ہمارے لیے گرم کھانا لاتے ہیں جسے ہم ہضم نہیں کرپاتے، کھانے میں مصالحہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بچے بیمار ہوجاتے ہیں، ہم اپنے گائوں واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ہم نہیں جاسکتے، اگر یہ لوگ ہمیں بریانی کے بجائے کچھ راشن ،تیل اور چائے کا سامان فراہم کریں تو ہم خود کھانا بنا سکتے ہیں‘۔
کچھ دیر بعد اچانک بوندا باندی شروع ہوئی تو اسکول کے صحن میں کھیلتے بچوں نے ایک طرف پڑے خالی امدادی سامان کے ڈبوں سے گتے کے ٹکڑے اٹھا کر اپنے سروں کو ڈھانپ لیا جس کے بعد وہ دوبارہ کھیل کود میں مصروف ہو گئے۔
تین بچوں کی پرورش کرنے والی بیوہ خاتون روبینہ کا کہنا تھا کہ ’بچے معصوم ہوتے ہیں، وہ ہر حال میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا جانتے ہیں ‘، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی طرف سے ادویات کی تقسیم کے لیے لگائے گئے اسٹال کی طرف جاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میرے شوہر کا جون میں پہلی بارشوں کے دوران انتقال ہوگیا تھا، میرے بچے ملیریا کے بخار میں مبتلا ہیں، ہم یہاں موجود ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے ساتھ اب کیا ہوگا ‘۔
ناخوش سیلاب زدگان
6 بچوں کی ماں نے شکایت کی کہ انہیں یہاں صرف پانی کا کولر ، ایک بالٹی اور چٹائی ملی ہے‘، لیکن جب ایک رضاکار نے انہیں میڈیا سے شکایت کرتے ہوئے سنا اور باز پرس کی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ آپ نے مجھے جو کچھ فراہم کیا ہے اُس میں ہم خوش ہیں، آپ کا شکریہ‘۔
سیلاب سے متاثر ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ انہیں پیسوں کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ بارش سے منہدم اپنے گھر کو دوبارہ تعمیر کرسکیں۔
فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن کے ایک نوجوان رضاکار داؤد جان کا کہنا تھاکہ ’ہم یہاں موجود تمام لوگوں کے لیے ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انہیں شکایت ہے کہ ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہورہی‘۔
ایک اور رضاکار رمیز بھٹو کا کہنا تھاکہ وہ انہیں ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا فراہم کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کو مزید چاہیے۔
انہوں نے آہ بھرے انداز میں کہا کہ ’ہم ان کی مدد کرنے کی پوری کوشش کررہےہیں، کھانے کے علاوہ دودھ، سیریلیک، ڈائپر بھی فراہم کررہےہیں لیکن بھر بھی یہ لوگ ناخوش ہیں، یقیناً یہ لوگ بہت افسردہ ہیں لیکن یہ لوگ دیگر افراد کی جانب سے عطیہ کیے گئے تحائف دیکھ کر بھی خوش نہیں ہیں‘۔
سیلانی ادویات کیمپ کے اسسٹنٹ آپریشن منیجر عمیر حسن نے بتایا کہ انہوں نے بھی لوگوں میں کھانا تقسیم کیا، لیکن ان افراد کے لیے نان، قیمہ اور گوشت لانے کے باوجود ہماری قدر نہیں کی جاتی۔
سندھی بولنے والے کچھ مقامی شہری افراد نے مفت کھانا کھانے کے لیے اسکول کی عمارت کے اندر جانے کی کوشش کررہے تھے لیکن سیکیورٹی گارڈ نے انہیں اندر جانے سے روک دیا۔
گلشن اقبال کے مادھو گوٹھ میں زیر تعمیر کیمپ کی دیوار ٹوٹ گئی جس کے بعد یہاں کے مقامی شہریوں کو باہر بٹھانا ممکن نہیں تھا لیکن سیلانی کے رضاکاروں کو ان کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
سیلانی کے رضاکار ندیم شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ ’ہم کسی کو بھوکا واپس نہیں جانے دیں گے‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ دوسرے کیمپ کے پناہ گزینوں کے مقابلے اس کیمپ کے مقیم ہماری تعریف تو کرتےہیں‘، جس پر لاڑکانہ کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے عبدلرزاق کا کہنا تھا کہ ’آپ بالکل ٹھیک بول رہےہیں لیکن مصالحہ دار کھانا ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے، ہم تندوری نان کو بھی ہضم نہیں کرسکتے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ پولیو ورکر سیما باجی نے ہمیں کچھ کپڑے فراہم کیے لیکن ان میں صرف جینز ، پینٹ اور ٹی شرٹ تھیں، ہم ایسا لباس نہیں پہنتے، ہم صرف شلوار قیمض پہن سکتے ہیں‘ ، انہوں نے کہا کہ یہاں موجود 260 لوگوں کو ڈپٹی کمشنر کی جانب سے پناہ دی گئی ہے۔
رضاکارندیم شاہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔