وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کو توسیع دینے کا کوئی امکان نہیں اور یہ منصوبہ موجودہ انفرا اسٹرکچر کی حدود میں رہ کر ہی شروع کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز سٹی اسٹیشن پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں وزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس صرف 12 سے 13 ماہ ہیں، جو معجزاتی کام کے لیے کافی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے سے بہت سی کوتاہیاں ہوئی ہیں اور حکومت کے پاس کے اس کا رخ تبدیل کرنے کا وقت اور وسائل نہیں ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہم پاکستان ریلوے کی نئی سمت کا تعین کرسکتے ہیں لیکن اس کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کرسکتے ہیں، علاوہ ازیں ہمارے پاس اس کام کے لیے فنڈز بھی موجود نہیں ہیں‘۔
کراچی سرکلر ریلوے کی توسیع یا لوپ سے متعلق سوال کے جواب میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’ یہ نہیں ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھاکہ ہمارے حالات کو دیکھتے ہوئے، میں واقعی میں کے سی آر ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہا، ریلوے کے لیے خود کو چلانا مشکل ہو رہا ہے، کے سی آر کے بارے میں کیا کہیں؟
انہوں نے نشاندہی کی کہ ’سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر وہاں جو کچھ بھی ہوا ہے وہی ہوگا، اسے کے سی آر کہیں یا جو چاہیں کہہ لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر کراچی کو میٹرو ٹرین کی ضرورت ہے، جہاں ایک ٹرین منٹوں میں دوسری ٹرین کے پیچھے آتی ہے لیکن کے سی آر واقعی کوئی میٹرو ٹرین نہیں ہے۔
منصوبے کو درپیش متعدد چیلنجز کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے دہرایا کہ کے سی آر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ تھا اور قابل عمل تھا، لیکن ہم خود یہ نہیں کرسکتے۔
وزیر نے یہ بھی کہا کہ چینی اس منصوبے کے لیے زمین کے حصول میں مسائل کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ افسوسناک ہے کہ کے سی آر کے لیے راستہ بنانے کے لیے کتنے لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا، انہیں مناسب معاوضہ دیا جانا چاہیے تھا اور متبادل رہائش فراہم کی جانی چاہیے تھی، شاید تب چینی بھی پیچھے نہ ہٹتے‘۔
نئے ریلوے ٹریک بچھانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر نے کہا کہ یہ سڑکوں کی تعمیر سے بالکل مختلف ہے، ’پٹریاں بچھانے کے لیے ایک مختلف قسم کی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں ہم ایک 150 سال پرانا نظام چلا رہے ہیں، مین لائن(ایم ایل ون) اب بھی ان کی حکومت کے ایجنڈے پر ہے، لیکن ایم ایل ون میں 4 سال کی تاخیر ہوئی ہے اور لاگت واقعی بڑھ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بھی ہم کام کو جاری رکھنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں، ہم معیار پر سمجھوتہ کیے بغیر منصوبے کی لاگت کم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت چین کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، پھر ہم دیکھیں گے کہ ایم ایل ون کے بارے میں کیا کرنا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ابتدائی منصوبہ لاہور اور ملتان کے درمیان مین لائن کی تعمیر کا تھا، لیکن اب ہم پہلے مرحلے میں کوٹری سے روہڑی تک، یا اگر فنڈز اجازت دیں تو کراچی سے کوٹری تک شروع کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایم ایل ون کے لیے فنڈز نہیں ہیں، اس لیے ہم امید کر رہے ہیں کہ یہ کام سی پیک یا ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے ذریعے ہو جائے جو آسان شرائط پر قرض دیتا ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’میں خواتین مسافروں کے لیے پردے کا نظام بنانا چاہتا ہوں، یہاں کی ٹرینوں اور اسٹیشنوں کو بہتر صفائی کی ضرورت ہے کیونکہ صفائی کا عملہ اپنا کام ٹھیک طور پر نہیں کر رہا تھا‘۔
وزیر کو تجویز دی گئی کنٹونمنٹ ریلوے اسٹیشن پر بھی چند لفٹوں کی ضرورت ہے جیسا کہ گرین لائن کے نئے بس اسٹیشنوں میں لفٹیں موجود ہیں، جو بزرگوں یا معذوروں کی سہولت کے لیے ہیں۔
تاہم انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس اسٹیشنوں پر لفٹیں یا ایلیویٹرز نہیں ہو سکتیں کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔