چین نے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ ممالک کے بیل آؤٹ کیلئے 240 ارب ڈالر خرچ کیے

چین نے 22 ترقی پذیر ممالک میں 2008 سے 2021 کے دوران 240 ارب ڈالر خرچ کیے، جس میں حالیہ برسوں کے دوران تیزی سے اضافہ دیکھا گیا کیونکہ کئی ممالک کو ’بلیٹ اینڈ روڈ‘ کے تحت انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق عالمی بینک، ہاروڈ کینڈی اسکول، ایڈ ڈیٹا اور کیل انسٹیٹیوٹ فار ورلڈ اکانومی کے تحقیق کاروں کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 80 فیصد بیل آؤٹ قرضے 2016 سے 2021 کے درمیان بنیادی طور پر وسط آمدنی کے حامل ممالک بشمول ارجنٹینا، منگولیا اور پاکستان کو دیے گئے۔

چین نے ترقی پذیر ممالک میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے سیکڑوں ارب ڈالر قرضے دیے ہیں لیکن 2016 کے بعد اس میں کمی آئی ہے کیونکہ متعدد منصوبوں سے متوقع مالیاتی نفع نہیں مل سکا۔

عالمی بینک کے سابق چیف اکانومسٹ کیرمین رین ہارٹ نے بتایا کہ بیجنگ بالآخر اپنے بینک کو بچانے کی کوشش کررہا ہے، اس لیے وہ عالمی بیل آؤٹ قرضوں کے خطرناک کاروبار میں پھنسی۔

رپورٹ کے مطابق قرض کی وجہ سے مشکلات کا شکار ممالک میں کُل غیر ملکی قرضوں کا 2010 میں چین کا حصہ 5 فیصد تھا وہ 2022 میں 60 فیصد تک پہنچ گیا۔

ارجنٹینا نے سب سے زیادہ 111 ارب 80 کروڑ کی رقم وصول کی، جس کے بعد پاکستان نے 48 ارب 50 کروڑ ڈالر اور مصر نے 15 ارب 60 کروڑ ڈالر وصول کیے جبکہ دیگر 9 ممالک نے ایک ارب ڈالر سے کم قرضے لیے۔

پیپلز بینک آف چائنا (پی بی او سی) نے مالیاتی مشکلات سے بچانے کے لیے 170 ارب ڈالر کے قرضے دیے جن میں سرینام، سری لنکا اور مصر شامل ہیں، برج قرضے یا توازن ادائیگی میں معاونت کے لیے چین کے سرکاری بینک نے 70 ارب ڈالر دیے، اسی طرح رول اوور کے لیے 140 ارب ڈالر دیے گئے۔

رپورٹ نے کچھ ممالک کے مرکزی بینک پر تنقید کی کہ وہ پی بی او سی کے قرضے استعمال کرکے مصنوعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھاتی ہیں۔

رپورٹ کے ایک مصنف اور امریکا کے ولیم اینڈ میری کالج میں تحیقی لیب ایڈ ڈیٹا کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ چین کے بیل آؤٹ قرضے ’مبہم اور غیر مربوط ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بیل آؤٹ قرضے زیادہ وسط آمدنی ممالک کو دیے گئے جو کُل قرضوں کا 80 فیصد بنتا ہے، جس وجہ سے چینی بینکوں کی بیلنس شیٹس کو خطرات ہوئے جبکہ کم آمدنی والے ممالک کو ادائیگی کے لیے رعایتی مدت کی پیشکش کی جاتی ہے۔

چین قرضوں کی تنظیم نو کے لیے زامبیا، گھانا، سری لنکا سے مذاکرات کر رہا ہے اور اس پر عمل کو لے کر چین پر تنقید کی جاتی ہے۔

اس کے رد عمل میں عالمی بینک اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بھی قرض میں ریلیف دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں