وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے 150 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والے چھوٹے دکانداروں پر عائد فکسڈ ٹیکس واپس لینے کا اعلان کیا تاکہ ان تاجروں کی ناراضی ختم کی جاسکے جو جولائی کے بجلی کے بلوں میں 3000 روپے اضافی چارجز وصول کرنے کے بعد احتجاج کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی بجٹ 23-2022 میں حکومت نے تجارتی اداروں سے مشاورت کے بعد چھوٹے تاجروں پر 3 ہزار روپے ماہانہ ‘مکمل اور حتمی’ ٹیکس عائد کیا تھا جو ان کے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کیا جائے گا۔
حکومت نے تاجروں کو یہ ضمانت بھی دی تھی کہ ٹیکس ادا کرنے کے بعد حکام ان سے پوچھ گچھ نہیں کریں گے
تاہم جیسے ہی بجلی کے بلوں کے ذریعے وصولی شروع ہوئی تو مختلف تجارتی انجمنوں، خاص طور پر کراچی میں جو کہ ملک کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہے، نے احتجاج شروع کردیا۔
چنانچہ وزیر خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ ہم چھوٹی دکانوں جو 100 سے 150 (بجلی) یونٹ استعمال کرتے ہیں، ان پر ٹیکس معاف کر دیں گے جبکہ دیگر تمام کاروباری اداروں بشمول صنعتوں، بینکوں اور بڑے تاجروں کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
مفتاح اسمٰعیل نے مزید کہا کہ 12 لاکھ روپے کمانے والوں کے لیے 36 ہزار روپے کا سالانہ ٹیکس دینا کوئی بڑا مطالبہ نہیں ہے، کیونکہ اس میں انکم ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس دونوں شامل ہیں۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگلے سال اپنی تیار کردہ اشیا کا کم از کم 10 فیصد برآمد کرنے میں ناکام رہنے والے مینوفیکچررز کو 10 فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا کیونکہ حکومت 48 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کے ساتھ نہیں چلائی جاسکتی جو گزشتہ حکومت چھوڑ کر گئی تھی۔
ساتھ ہی وزیر خزانہ نے مہنگائی پر قابو پانے میں اپنی ‘بے بسی’ کا اعتراف کرتے ہوئے مزید کہا کہ ‘ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانا اور معاشی نمو کو بڑھانا کسی بھی وزیر خزانہ کی اولین ترجیحات ہونی چاہئیں لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ دونوں میری ترجیحات میں شامل نہیں ہیں، میری ترجیح ڈیفالٹ سے بچانا تھی۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ ذخائر میں کمی کے باوجود اضافی درآمد کرنے کے بعد 10 لاکھ ٹن گندم فاضل ہے جبکہ یوٹیلٹی اسٹورز کو رعایتی نرخوں پر آٹا 40 روپے، چینی 70 روپے اور ویجیٹیبل گھی اور تیل 300 روپے فی کلو فروخت کرنے کے لیے فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔
تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر نے کہا کہ جون میں درآمدات 7.7 ارب ڈالر رہیں لیکن درآمدات پر پابندی اور دیگر درآمدات کی سست پروسیسنگ جیسے اقدامات کے نتیجے میں جولائی میں کم ہو کر 5 ارب ڈالر رہ گئیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت درآمدات کو کم کرنے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو، جو گزشتہ مالی سال میں ساڑھے 17 ارب ڈالر تھا، سرپلس میں تبدیل کرنے کے لیے اقدامات جاری رکھے گی۔