مسلم لیگ(ق) کے رہنما چوہدری مونس الٰہی نے کہا ہے کہ چوہدری شجاعت نے وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں پرویز الٰہی کی حمایت سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بنیں لیکن عمران خان کے نہ بنیں۔
ہفتہ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری مونس الٰہی نے کہا کہ گزشتہ روز چوہدری شجاعت سے خط کے حوالے سے بات ضرور ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ میں نے خط ضرور لکھا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ(ق) والے کسی کو بھی ووٹ نہ دیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس پر کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ پرویز الہٰی ابھی الیکشن نہ جیتیں جس پر انہوں نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ضرور بنیں لیکن عمران خان کے نہ بنیں۔
مونس الٰہی نے کہا کہ میں نے شجاعت صاحب سے کہا کہ اس طرح پرویز الٰہی الیکشن ہار جائیں تو وہ خاموش ہو گئے، میں نے ان سے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی لیکن ان پر کمرے میں کوئی اور دباؤ بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے معذرت کر لی تو پھر میں نے بھی معذرت کر لی۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ کل رات کو پاکستان کی قوم نے جو تماشا دیکھا اس پر سپریم کورٹ نے ہماری درخواست پر سماعت شروع کی، ایک ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی جس کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں اور وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ میں یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق کررہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ علی ظفر نے اسی سپریم کورٹ کی رولنگ سے لفظ با لفظ پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ ناصرف آئین بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی لکھا ہوا ہے کہ پارلیمانی پارٹی فیصلہ کرے گی کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں کس امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہے اور ان ہدایات کے مطابق ووٹ ڈالنا ہے اور اگر کوئی نہیں ڈالے گا تو انہیں منحرف قرار دے دیا جائے گا۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو طلب کیا ہے اور ان سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے انہوں نے جو تشریح اخذ کی ہے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا اور انہوں نے اپنے اس حکم کے لیے عدالتی حکم کی کونسی لائن یا حصے پر انحصار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت تب آئے گی جب آپ اپنی پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کریں گے، وہ تگڑی ہو گی تو جمہوریت آئے گی اور سپریم کورٹ کی تشریح پارٹی میں جمہوریت کو مضبوط کرے گی۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آصف علی زرداری نے کل پاکستان کے آئین، جمہوریت اور جمہوریت اقدار کے ساتھ کھیل کھیلا ہے ، اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تو اس کے نتائج ماضی میں بھی برے نکلے تھے اور آئندہ بھی برے نکل سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ماضی سے سیکھنا ہو گا اور اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت کا احترام ہے لیکن ان کا منفی کردار تاریخ میں لکھا جائے گا اور ان کے خط کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے، یہ اراکین میں تقسیم نہیں کیا گیا، کارروائی کرائی، ہمارے پارلیمانی لیڈر محمودارشید نے لیٹر دیا تھا۔
شاہ محمود نے کہا کہ آپ نے خاموشی سے خط دیا، آپ کو ممبر کو خط دینا چاہیے لیکن ڈپٹی اسپیکر اپنی جیب میں خط لے کر بیھا ہے، اس سے بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پناب میں اپنے آپ کو دفن کر چکی ہے اور پنجاب میں اپنی موت مر چکی ہے اور اب وہ مسلم لیگ(ن) کی ذیلی تنظیم ہے۔