چاہیں تو کل حکومت گرادیں لیکن انہیں فیصلے کا موقع دینا چاہتے ہیں، فواد چوہدری

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ چاہیں تو کل وفاقی حکومت گرا دیں لیکن انہیں فیصلے کا موقع دینا چاہتے ہیں کہ کیسے آگے بڑھنا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ضمنی انتخابات کی شکست کے بعد پی ٹی آئی پنجاب میں بھی حکومت بنانے جارہی ہے، اس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف صرف سی ڈی اے کے چیئرمین رہ جائیں گے، کیونکہ موٹروے سے آپ دائیں کی جانب جائیں تو پشاور ہے، بائیں جائیں تو پنجاب ہے اور دونوں جگہ پر پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ 22 جولائی کو پنجاب میں ہماری حکومت بن جائے گی اور 23 جولائی کو ہم وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے صوبہ پنجاب میں داخلے پر پابندی لگا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح وزیر داخلہ پنجاب عطااللہ تارڑ پر بھی صوبے میں داخل ہونے پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے، کیونکہ انہوں نے جس طرح سے ہمارے لوگوں کے خلاف زیادتیاں کی ہیں، ہمارے رہنماؤں کو مختلف مقدمات میں گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، شہباز گِل کو گرفتار کرکے چھوٹے سے سیل میں 9 گھنٹے تک رکھا گیا، پانی تک نہیں دیا گیا، ہم نے ان زیادتیوں کو بھی دیکھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رانا ثنااللہ کے رات کے اس بیان کے بعد جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 5 بندے غائب ہو سکتے ہیں، ان کے پنجاب میں داخلے پر پابندی لگانی چاہیے، رانا ثنااللہ، عطا تارڑ جیسے لوگ پنجاب کے لیے ناسور ہیں، صوبے کے عوام چاہتے ہیں کہ یہ لوگ وہاں نظر نہ آئیں، کیونکہ یہ لوگ نفرتوں کا باعث ہیں، ایسے لوگوں کے داخلے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔

‘طاقتور حلقوں کو ہمارا ایجنڈا معلوم ہے’

فواد چوہدری نے کہا کہ جس طرح پنجاب میں علی امین گنڈاپور کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی، اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خیبر پختونخوا میں داخلے پر پابندی پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حکومت کو چند روز کی مہلت دی ہے کہ وہ فیصلہ کرلیں کہ انہوں نے عام انتخابات کی جانب کب جانا ہے، الیکشن کمیشن اور انتخابی اصلاحات کی جانب کب آنا ہے، ہمارا کوئی خفیہ مطالبہ یا ایجنڈا نہیں، طاقتور حلقوں کو بھی ہمارا ایجنڈا معلوم ہے، ہمارا جو ایجنڈا عوام کے سامنے ہے وہی بند کمروں میں بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز عمران خان نے بھی کہا ہے کہ وہ دن چلے گئے جب فیصلے بند کمروں میں کیے جاتے تھے، اب فیصلوں کا اختیار عوام کے پاس ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کے پاس بھی اب چند دن ہیں کہ وہ فیصلہ کرلیں کہ وہ خود جائیں گے یا ان کو گھر بھیجنے کے لیے ہمیں کوئی کارروائی کرنی پڑے گی، انہوں نے اپنی اور ادارے کی عزت وقار کم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، چیف الیکشن کمشنر استعفیٰ دیں اور سیاسی جماعتوں کو موقع دیں کہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کریں۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پہلے شہباز شریف انتخابات کی تاریخ دیں تو پھر ہم ان سے بات چیت کے لیے تیار ہیں، انتخابات کا فریم ورک سیاسی جماعتوں نے طے کرنا ہے، اس میں سب سے اہم نئے الیکشن کمیشن کا قیام ہے۔

‘سیاسی بحران میں عدالتی فیصلوں کا بھی کردار ہے’

انہوں نے کہا کہ جمہوریت روایات پر چلتی ہے، جمہوری روایات کے مطابق حمزہ شہباز کو اب تک استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، عہدے سے علیحدہ نہ ہو کر وہ جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں، ہم نے پرویز الہٰی کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی کی توثیق کردی ہے اور چاہتے ہیں کہ صوبے کا انتظام و انصرام اب وہ چلائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب مریم نواز، ملک احمد خان نے اپنی شکست تسلیم کرلی تو اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ حمزہ شہباز استعفیٰ دیتے مگر وہ اب تک عہدے سے چمٹے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3 ماہ سے ملک میں حکومت نہیں چل رہی، پنجاب میں اب تک گندم کی خریداری نہیں کی گئی، دسمبر میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، صوبے کے سیاسی بحران میں عدالتی فیصلوں اور الیکشن کمیشن کا بھی کردار ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ رانا ثنااللہ کی زندگی میں دو ہی مرحلے ہیں، ایک یا تو وہ وزیر ہوتے ہیں یا پھر وہ جیل میں مار کھا رہے ہوتے ہیں، ان کی زندگی میں اس کے علاوہ کوئی مرحلہ ہی نہیں ہے، میں نے ان کو پہلے بھی مشورہ دیا تھا کہ اپنی زندگی سے سیکھیں، انسان کے بچوں کی طرح بات کیا کریں، جب وزیر ہوتے ہیں تو ان کی گردن سے سریا نہیں نکلتا۔

ان کا کہنا تھا موجودہ حکومت صرف اس وجہ سے قائم ہے کیونکہ ہم انہیں موقع دینا چاہتے ہیں، ورنہ ہم چاہیں تو صدر مملکت سے درخواست کریں کہ وہ وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں، اس صورت میں شہباز شریف اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب نہیں ہوں گے، ان کے پاس اکثریت نہیں ہے، ان کے پاس اس وقت ایوان میں 162 سے زیادہ لوگ نہیں ہیں جبکہ ان کو اکثریت کے لیے 172 لوگوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عبوری نگراں حکومت ہمیں 90 روز سے زیادہ ایک دن کے لیے بھی قبول نہیں ہوگی، 90 روز میں انتخابات کا انعقاد کرایا جائے اور پھر منتخب حکومت ملکی معیشت ٹھیک کرے گی، نگراں حکومت کا کام معیشت کو ٹھیک کرنا نہیں ہے جیسا کہ کہا جارہا ہے۔

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کو بھاری رقوم کی پیشکش کی گئی ہے جنہیں ہمارے رہنماؤں نے مسترد کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق صدر آصف زرداری کبھی زندگی میں ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے تو انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کیا کھڑا ہونا ہے، پیپلز پارٹی اس وقت مسلم لیگ (ن) کی سیاسی لاش کے اوپر کھڑے ہوکر بڑکیں مار رہی ہے، ان کا کچھ نہیں جارہا، وہ سندھ کی جماعت ہیں اور چاہتے ہیں کہ سندھ میں حکومت جاری رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری جانتے ہیں کہ شہباز شریف کی حکومت اب نہیں چل سکتی، ان کو پتا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت وینٹی لیٹر پر ہے، پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ شہباز شریف کی حکومت بھلے ختم ہوجائے، ہماری سندھ حکومت قائم رہنی چاہیے، اس کے علاوہ اس کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔

‘ممنوعہ فنڈنگ کا قانون ہم پر لاگو نہیں ہوگا’

فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الزام ہے کہ ہم نے بیرونی کمپنیوں سے فنڈنگ لی جبکہ 2018 تک اس طرح کی کوئی پابندی نہیں تھی، یہ قانون اور پابندی ہماری فنڈنگ پر لاگو نہیں ہوتا، اس لیے ہمیں ممنوعہ فنڈنگ کیس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، الیکشن کمیشن پر ہمارے تحفظات کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس چیف الیکشن کمشنر پر اعتبار نہیں، انہوں نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ہمیں ہرانے کے لیے ووٹر لسٹیں تبدیل کیں، پولنگ اسکیم میں تبدیلی کی، ہمارے 5 لوگوں کو نوٹی فائی نہیں کیا، 7 کیس ہم الیکشن کمیشن میں لے کر گئے تو ہمارے خلاف فیصلے آئے جبکہ انہی کیسز میں لائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ہمارے حق میں فیصلے آئے جس سے الیکشن کمیشن کی جانبداری ظاہر ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا حق ہے کہ ہم چیف الیکشن کمشنر کی برطرفی کا مطالبہ کریں اور ان کی ذمے داری ہے کہ تمام جماعتوں کو ان پر اعتبار ہو اور اگر ان پر اعتبار نہیں ہے تو انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ راجا ریاض ڈمی اپوزیشن لیڈر ہیں، اس لیے ہم نے شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ بال اس وقت ان کے کورٹ میں ہے اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں، ہم چاہیں تو یہ حکومت کل گرا دیں لیکن ہم ان کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کریں کہ کیسے آگے جانا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ شہباز شریف کو پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی فنڈنگ سے متعلق فیصلے کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں