پی ٹی آئی حکومت کے روس سے تیل کی خریداری کے معاہدے کا علم نہیں، روسی قونصل جنرل

کراچی میں روسی قونصل جنرل آندرے وکٹرووچ فیڈروف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی سابق حکومت کی جانب سے تیل کی خریداری کے معاہدے کی تفصیلات کا انہیں علم نہیں تاہم یہ معاملات زیر غور ضرور رہے ہیں۔روسی قونصل جنرل نے کہا کہ سابق وزیراعظم کے عمران خان کے دورہ روس میں بھی تجارت سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا تاہم تیل کی خریداری کے معاہدے یا پاکستانی وزرا کے روس سے تجارتی روابط کے حوالے سے تفصیلات کا انہیں علم نہیں ہے البتہ یہ معاملات زیر غور ضرور رہے ہیں۔انہوں نے پاکستان اور روس کے درمیان تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور روس تیل، گیس، توانائی اور زراعت سمیت متعدد شعبوں میں ایک دوسرے سے استفادہ کر سکتے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعاون روس پر عائد غیرقانونی پابندیوں کا حل نکالنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور روس کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں لیکن غیرقانونی مغربی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان اور روس کے درمیان تجارت کا عمل متاثر ہے لہٰذا دونوں ممالک کو مل کر اس کا حل تلاش کرنا ہو گا۔

واضح رہے کہ ملک میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کے سبب حکومت کو شدید تنقید اور غم و غصے کا سامنا ہے۔

تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان تیل کی قیمت میں اضافے اور روس سے سستا تیل نہ لینے پر موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اس کے لیے پڑوسی ملک بھارت کی مثال بھی دیتے ہیں۔

گزشتہ ماہ انہوں نے بھارت کی خارجہ پالیسی کو آزاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکا کی زیر قیادت اتحاد ’کواڈ‘ کا کلیدی رکن ہونے کے باوجود روس سے سستے داموں تیل خرید رہا ہے اور اپنے عوام کو ریلیف فراہم کر رہا ہے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ’ یہی وہ مقصد تھا جسے حکومت آزاد خارجہ پالیسی کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی‘۔

سابق وزیراعظم اکثر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کی حکومت کی روس سے توانائی بالخصوص تیل اور گیس کی خریداری کے لیے بات چیت چل رہی تھی لیکن نئی حکومت نے ’بیرونی طاقتوں‘ کی ایما پر روس سے روابط منسوخ کر کے پاکستان کے عوام پر مہنگائی کا بوجھ مسلط کردیا۔

جب روس سے تیل کی خریداری کے حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سے سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر روس سے تیل کی پیشکش کی جاتی ہے اور اس طرح کے معاہدے پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کی جاتی ہیں تو پاکستان سستی قیمت پر تیل خریدنے کے لیے تیار ہے۔

ان کے خیال میں پاکستانی بینکوں کے لیے روسی تیل خریدنے کے لیے انتظامات کرنا ممکن نہیں اور ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ روس نے ویسے بھی پاکستان کو رعایتی نرخ پر ایسی کسی بھی خریداری کی پیشکش نہیں کی ہے۔

انہوں نے سی این این کی اینکر کو بتایا تھا کہ پچھلی حکومت نے روس سے تیل خریدنے کی بات کی تھی لیکن میرے خیال میں روس پابندیوں کی زد میں ہے اور انہوں نے پچھلی حکومت کی جانب سے لکھے گئے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔

پاکستان کے برعکس 24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد بھارت کو ماسکو سے 3کروڑ 40لاکھ بیرل رعایتی روسی تیل موصول ہو چکا ہے جو 2021 میں بھارت کی روس سے کی گئی خریداری کے مقابلے میں کل درآمدات کی قدر میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

’مغربی ممالک جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں‘

روسی قونصل جنرل نے یوکرین جنگ میں مغربی ممالک کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی جنگ نہیں بلکہ اسپیشل آپریشن ہے لیکن مغربی ممالک جلتی آگ پر تیل کا کام کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو برطانیہ سمیت دیگر مغربی ممالک اسے سبوتاژ کر دیتے ہیں، ہماری جنگ یوکرین سے نہیں بلکہ نیٹو سے ہو رہی ہے جو یوکرین کو اسلحہ اور ہتھیار فراہم کررہا ہے۔وکٹرووچ فیڈروف نے کہا کہ کسی کو روسی شہریوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، یوکرین سے آٹھ سال سے مذاکرات جاری تھے اور بات چیت سے معاملے کے حل کی کوشش کی جا رہی تھی تاہم مسئلہ حل نہ ہونے کی صورت میں آپریشن شروع کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں