الیکشن کمیشن نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 25 منحرف اراکین کی نااہلی کے ریفرنس پر فیصلہ مؤخر کردیا۔
کمیشن کی جانب سے مذکورہ ریفرنس پر فیصلہ دینے کی تاریخ آج مقرر کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا اور کہا تھا کہ فیصلہ بدھ کو 12 بجے سنایا جائےگا، بعد ازاں الیکشن کمیشن کی کاز لسٹ سے فیصلے کو نکال دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کا فیصلے کی خاص طور پر آرٹیکل 63 اے کی تشریح اور اس سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نمایاں اہمیت ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ روز منحرف قانون سازوں کی نااہلی سے متعلق فیصلہ سنایا گیا تھا۔
آرٹیکل 63 اے قانون سازوں کو ’وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب، یا عدم اعتماد کے ووٹ کی تحریک کے اقدام یا مالیاتی بل یا آئینی ترمیمی بل میں‘ پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ دینے اور ووٹنگ کے روز (غیر حاضر) ہونے سے روکتا ہے۔
گزشتہ روز آرٹیکل 63 اے سے متعلق ریفرنس پر رائے دیتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ نے کہا تھا کہ پارٹی کی ہدایت کے بغیر دیا گیا ووٹ ’شمار نہیں کیا جاسکتا، اس بات سے قطع نظر پارٹی کا سربراہ انحراف سے متعلق کارروائی کرتا ہے یا اس سے گریز کرتا ہے، پارٹی کی ہدایت کے مخالف ووٹ نظر انداز کردینا چاہیے‘۔
خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے 25 اراکین نے انحراف اور حمزہ شہباز کی مدد کی جس کی مدد سے حمزہ شہباز نے 197 ووٹ حاصل کیے جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 186 ووٹ درکار تھے، اگر ان کی ووٹوں کی تعداد میں سے پی ٹی آئی کے 35 اراکین کی ووٹ نکال دیے جائیں تو حمزہ شہباز اپنی سادہ اکثریت کھو بیٹھیں گے۔
حمزہ شہباز کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب 16 اپریل کو منتخب کیا گیا تھا، پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے 25 اراکین کے انحراف کی ڈیکلیریشن اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کو بھیج دیے گئے تھے۔
چوہدری پرویز الہٰی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبے کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار بھی تھی۔
پی ٹی آئی کی وضاحت کے بعد پرویز الہٰی نے منحرف اراکین سے متعلق الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجتے ہوئے انہیں ڈی سیٹ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اراکین نے پارٹی کی ڈائریکشن کے خلاف ووٹ کاسٹ کیا ہے۔
ان منحرف اراکین میں راجا صغیر احمد، ملک غلام رسول سانگھا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبد العلیم خان، نذیر احمد چوہان، محمد امین زوالقرنین، ملک نعمان لنگریال، محمد سلمان، زاور حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گل، عظمیٰ کردار، ملک اسد علی، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم اور فیصل حیات شامل ہیں۔
متعدد اراکین نے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کے اقدام پر اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں پارٹی کی جانب سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔
طریقہ کار پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں ہرگز کوئی شوکاز نوٹسز موصول نہیں ہوئے جو ایک ضروری عمل ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا نے دلائل دیے تھے کہ اراکین کو پنجاب اسمبلی میں پارٹی کی قیادت علاوہ جنرل سیکریٹری اسد عمر کی جانب سے بھی خط کے ذریعے ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
آرٹیکل 63 اے
آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ ‘منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا’۔
اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔
بعد ازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 روز ہوں گے۔
آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن ‘ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی’۔
آرٹیکل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ناراض کوئی بھی فریق ایک ماہ کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتا ہے، سپریم کورٹ کے پاس اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے 90 دن ہیں۔