پی ٹی آئی کا معاشی بدحالی پر اسحاق ڈار کے استعفے کا مطالبہ

پاکستانی روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ اور شرح سود میں 300 بیسس پوائنٹس کے اضافے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت بد انتظامی کے ذریعے ’تیزی سے ترقی کرتی معیشت کو منہ کے بل گرا دینے‘ پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

سلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان بدترین معاشی تباہی سے گزر رہا ہے لیکن وزیراعظم اور کابینہ اب بھی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ اسحٰق ڈار سے جان چھڑانا ناگزیر ہے کیونکہ یا تو انہیں استعفیٰ دے دینا چاہئے یا معاشی تحفظ کی خاطر انہیں فوری طور پر برطرف کر دینا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکمران اتحاد کی ناقص معاشی مینجمنٹ کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک حکومت پر مزید اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

سابق وزیر نے کہا کہ حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا 3 ہفتے کی چھٹی پر ہیں جب کہ وزیر خزانہ عوام کو معاشی تباہی سے آگاہ کرنے کے لیے قوم کا سامنا نہیں کر سکتے جو ان چوروں نے ملک میں مچائی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ملک کو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک نئے عوامی مینڈیٹ کی اشد ضرورت ہے۔

پی ٹی آئی رہنما کے مطابق گزشتہ 11 ماہ کے دوران روپے کی قدر میں 62 فیصد کمی ہوئی اور ’اوپن مارکیٹ میں روپیہ ڈالر کے مقابلے 310 روپے کی کم ترین سطح پر گر گیا‘۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ صرف شرح مبادلہ میں اتار چڑھاؤ سے عوامی قرضوں میں 143 کھرب روپے کا اضافہ ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں شرح مبادلہ میں فرق اور غیر ملکی ترسیلات زر میں کمی کی وجہ سے ماہانہ 80 کروڑ ڈالر کا نقصان پہن رہا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی حیثیت کو مستحکم سے منفی میں تبدیل کر دیا، جو ڈیفالٹ ہونے کے قریب ممالک کو دی گئی سب سے کم ریٹنگ تھی جیسا کہ سری لنکا کو دیوالیہ ہونے سے پہلے دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان 5 ہزار 500 ارب روپے صرف اپنے جمع کردہ قرضوں کے سود کی مد میں ادا کر رہا ہے اس حکومت نے صرف 11 ماہ میں جو ملک کے ساتھ کیا ہے وہ دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔

حماد اظہر نے معاشی بدحالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر شوکت ترین کو آئی ایم ایف نے معاہدہ سبوتاژ کرنے پر غدار قرار دیا گیا تو اب ڈار اور شہباز کا کیا ہوگا؟

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی صحیح حیثیت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کیونکہ حکومت کی زیادہ تر توجہ اپنے اراکین کے خلاف ’انتقام کی سیاست اور بدعنوانی کے مقدمات ختم کرنے‘ پر مرکوز تھی۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں