‘پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پیدواری لاگت بڑھائے گا’

صنعت و تجارت کے رہنماؤں نے تنقید کی ہے کہ حکومت کی جانب سے پیٹرول و ڈیزل کی قیمت میں 30 روپے فی لیٹر کا بڑا اضافہ نہ صرف مہنگائی سے متاثرہ عوام کی پریشانیاں بڑھائے گا بلکہ پیداوار کی لاگت میں بھی اضافے کا باعث بنے گا۔

رپورٹ کے مطابق کاروباری برادری نے کہا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے ایندھن اور بجلی کی سبسڈی واپس لینے کے دباؤ میں آگئی۔

بزنس مین گروپ (بی ایم جی) کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت میں 5 سے 7 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اضافے کے اشیا کی خوردہ قیمت پر بھی کئی گنا اثرات مرتب ہوں گے جس کے سبب مصارف زندگی بڑھنے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ صنعتی شعبے اور صارفین کے لیے حکومت کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکدم اضافے کے بجائے مرحلہ وار اضافہ کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے قرضہ لینے کے لیے آئی ایم ایف کی ایک شرط کو مان لیا ہے۔

چیئرمین بی ایم جی نے پیش گوئی کی کہ حکومت آئی ایم ایف کی دیگر شرائط ماننے کے بعد مزید مشکل دن آئیں، ان شرائط میں بجلی و گیس کے نرخ بڑھانا، گردشی قرضے کم کرنا اور سبسڈی کو ختم کرنا شامل ہے۔

زبیر موتی والا نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک میں ‘معاشی ایمرجنسی’ کا اعلان کریں۔

نئی سبزی منڈی سپر ہائی وے کی فلاحی انجمن ہول سیل ویجیٹیبل کے صدر حاجی شاہ جہاں نے توقع ظاہر کی کہ اس فیصلے سے سبزیوں کی قیمتوں میں 5 سے 7 روپے فی کلو کا اضافہ ہوگا کیونکہ ٹرانسپورٹرز پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ صارفین کو فوری طور پر منتقل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ صارفین کے لیے یہ سنگین صورتحال ہے جو پہلے ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں۔

حاجی شاہ جہاں نے کہا کہ حکومت کو آئی ایم ایف کی شرط پورا کرنے کے لیے ایندھن قیمت میں اضافے کا بڑا جھٹکا دینے کے بجائے فی لیٹر 10 روپے کا مرحلہ وار اضافہ کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اخراجات میں اضافے کا باعث بنے گا جس سے کم آمدنی والا طبقہ اپنی روزمرہ کی اشیائے خورونوش کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بدعنوانی اور رشوت کا سہارا لے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ غیر مستحکم معاشی اور سیاسی صورتحال کی موجودگی میں حکومت کا یہ اقدام ظالمانہ ہے۔

کراچی ہول سیل گروسری ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو جی اے) کے سرپرست انیس مجید نے دالوں، چینی، گندم سے بنی مصنوعات و دیگر اشیا کی قیمتوں میں 2 سے 3 روپے فی کلو اضافے کا اندازہ لگایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور سندھ میں تیار کردہ مصنوعات کی ٹرانسپورٹیشن لاگت پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہول سیل قیمتوں میں اضافے کے بعد خوردہ فروش بھی ترسیل کی اضافی لاگت کو مصنوعات کی قیمت میں شامل کریں گے۔

ایوانِ صنعت و تجارت کراچی (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ادریس نے آئی ایم ایف کی شرط پورا کرنے کے اس حکومتی فیصلے کو انتہائی غیر مقبول قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت تجارت و صنعت اور چاروں صوبوں کے اسٹیک ہولڈرز سے متبادل حل کے لیے مشاورت کریں کہ کس طرح ایندھن کا درآمدی بل 20 سے 25 فیصد کم، کاربار کرنے کی لاگتِ میں کمی و دیگر توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے کووڈ 19 کی انتہا کے دوران تاجروں کے اوقات کار میں کمی کر کے توانائی کو بچایا تھا، اسی طرح کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ پیٹرول اور ڈیزل کی درآمد کے خطیر اخراجات کو کم کیا جاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں