وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کریں گے، وزیر اعظم شہباز شریف عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے، تاہم مستقبل میں پیٹرول کی قیمتوں میں ردو بدل ہوسکتا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھاتے ہیں تو گناہ گار ہوتے ہیں نہیں بڑھاتے تو گناہ گار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے آخری وقت میں حکومت کو بچانے کے لیے پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کردی، پیٹرول کی فی لیٹر قیمت کو 160 روپے سے کم کرکے 150 روپے کردیا جبکہ ڈیزل 145 روپے کا کر دیا جبکہ اُس وقت خام تیل کی قیمت 90 ڈالر فی بیرل کے قریب تھی جبکہ آج تیل کی قیمت 110 ڈالر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان صاحب یہ بارودی سرنگ بچھا کر گئے ہیں اور یہ اس پر خوش ہو رہے ہیں، آپ مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچانے کے بجائے ملک کو کس نہج پر لے آئے ہیں، آج حکومت عمران خان کی سبسڈی کے باعث پیٹرول و ڈیزل پر ماہانہ 120 ارب روپے کا نقصان کر رہی ہے جو کہ سویلین حکومت کے اخراجات سے 3 گنا زیادہ رقم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کو کہا تھا کہ ایک پیسے کی بھی سبسڈی نہیں دیں گے جبکہ پیٹرول پر 30 روپے فی لیٹر لیوی اور 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کریں گے، شوکت ترین کے وعدے کے مطابق ڈیزل و پیٹرول کی قیمت میں 150 روپے کا اضافہ ہونا چاہیے تھا۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ آپ نے جن آٹے کی چکیوں کو ہزاروں ٹن گندم دی تھی ان کا بجلی کا بل صفر تھا، بجلی کے صفر بل کا مطلب ہے کہ انہوں نے گندم سے آٹا نہیں بنایا بلکہ وہ گندم افغانستان میں بھیج دی، ہمارے پاس کافی شواہد موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اٹک میں جو ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر لگتے ہیں وہ کتنے پیسے دے کر لگتے تھے اور کون خاتون تھیں وہ بھی ہم جانتے ہیں، گندم افغانستان اسمگل کروا دی، کھاد اسمگل کروا دی۔
ان کا کہنا تھا کہ کھاد کی 2 ہزار 600 سے 3 ہزار روپے کی بوری میں ہم نے 4 ہزار روپے کی سستی گیس دی ہوئی ہوتی ہے، دنیا بھر میں اُس بوری کی قیمت 8 سے 9 ہزار روپے ہوتی ہے جو ہم اپنے کسان کو سستی دیتے ہیں، پاکستان میں کھاد بنانے والی ایسی بھی کمپنیاں ہیں جنہیں ہم گیس 260 روپے فی ایم ایم بی ٹی ایو میں دیتے ہیں جبکہ ہماری خرید 3 ہزار روپے کی ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے کسان کو سستی کھاد میسر آسکے نہ کہ اسمگل کروا دیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 4 سالوں میں کپاس، چاول کے بیج سمیت کسی فصل کے بیج پر کوئی کام نہیں ہوا، یہ ان کی زراعت کی کہانی تھی۔
’زراعت ٹھیک کیے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم زراعت کو ٹھیک نہیں کریں گے تو پاکستان آگے نہیں بڑھے گا، ہمارا زرعی ملک ہے جبکہ ہم نے 8 ارب ڈالر کی اشیائے خورونوش درآمد کی ہیں، ہم رواں برس 4 ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی کپاس درآمد کریں گے یا کر چکے ہیں، رواں برس چینی درآمد نہیں ہوگی، ہم نے پچھلے سال 60 کروڑ ڈالر کی گندم درآمد کی ہے، رواں برس ہم کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ رواں برس پاکستان رفتار کے حساب سے درآمدات 75 ارب ڈالر کرے گا، پاکستان کی برآمدات 30 ارب ڈالر ہوں گی، اس کے باوجود 45 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوگا اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 15 ارب ڈالر سے تجاوز کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب مسلم لیگ (ن) حکومت چھوڑ کر گئی تھی تو آٹے کی قیمت 35 روپے تھی جو کہ اب 80 روپے کلو ہے، ہم نے حکومت میں آنے کے بعد یوٹیلٹی اسٹورز میں چینی کی قیمت کم کرکے 70 روپے کلو کردی ہے، جب تک ان کے پاس اسٹاک رہے گا اس وقت تک 70 روپے کلو میں ہی دستیاب ہوگی، اسٹاک ختم ہونے کے بعد سبسڈی دے دیں گے تاکہ لوگوں کو سستی چینی میسر آسکے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ذریعے گھی پر بھی 195 روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں لیکن عمران خان کی حکومت میں یہ چیزیں ناقابل برداشت حد تک مہنگی ہوئی ہیں، جس کی وجہ ناقص پالیسیاں اور کرنسی کی بے قدری ہے، اس میں عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھنا بھی وجہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے کووڈ 19 اچھا ثابت ہوا کیونکہ جی 20 ممالک نے 4 ارب ڈالر کی رقم نہیں مانگی بلکہ انہیں مؤخر کر دیا تھا، اسی طرح آئی ایم ایف نے 1.5 ارب ڈالر کے ایمرجنسی فنڈز دیا اس سے بھی فائدہ ہوا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اسی طرح ڈپازٹ کی شکل میں دنیا بھر سے قرضے لیے، لہٰذا عمران خان کی حکومت کو کووڈ سے فائدہ ہوا لیکن وہ عوام کو ریلیف نہیں دے سکے۔
’عمران خان ‘ڈی ویلیو ایشن کنگ ہیں‘
انہوں نے کہا کہ اسد عمر تنقید کر رہے ہیں یا عمران خان کہہ رہے ہیں کہ روپے کی قدر کم ہو رہی ہے تو بھائی ‘ڈی ویلیو ایشن کنگ’ تو آپ ہیں، سب سے زیادہ کرنسی کی قدر آپ کے دور میں کم ہوئی ہے، ہمارے دور حکومت میں ڈالر 115 روپے کا تھا جبکہ آپ کی حکومت میں 189 روپے تک پہنچ گیا، اُس وقت تو روپے کی بے قدری پر خوشیاں مناتے تھے۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی وجہ سے چند دن میں ڈالر 190 روپے سے کم ہو کر 182 روپے کا ہوگیا تھا کیونکہ لوگوں کو شہباز شریف پر اعتماد تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ہلچل اور جھوٹ کا طوفان پھیلایا ہوا ہے اور ان کے مطابق عمران خان کے علاوہ افواج پاکستان کے سربراہ و افسران، تمام سیاستدان، صحافی اور عوام غدار ہیں، ملک میں صرف عمران خان ہی ایماندار اور محب وطن رہ گئے ہیں، من حیث القوم ہم سب لوگ بیکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ برآمدات میں بالکل 25 سے 30 فیصد اضافہ ہوا ہے اس میں آپ دیکھ لیں کہ قیمت کا اور مقدار کا کتنا اثر ہے، عمران خان کی حکومت کے ابتدائی 3 سال برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا، پوری دنیا کی برآمدات کے تناسب کے اعتبار سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ درآمدات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، یہ 25 فیصد برآمدات بڑھانے پر خوش ہوتے ہیں حالانکہ اس میں قیمت کا اثر زیادہ ہے، 6 ہزار روپے روئی کی قیمت 18 ہزار روپے ہونے سے ملبوسات کی قیمت میں اضافہ ہونا تھا لیکن درآمدات میں اضافے کی بات کرو تو آپ کہتے ہیں درآمدات عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ برآمدات میں 25 فیصد جبکہ درآمدات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، 2 ارب ڈالر سے زائد کے موبائل فون کیوں آرہے ہیں، خوردنی تیل اتنی مقدار میں کیوں آرہا ہے، گندم کیوں درآمد ہو رہی ہے، روئی اتنی کیوں درآمد ہو رہی ہے کیونکہ ملک میں ان چیزوں کی پیداوار کم رہی، جب ہم بنیادی چیزیں ہی درآمد کر رہے ہیں تو مشینوں کی کیا بات کر رہے ہیں۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ 30 جون 2018 کو پاکستان کا کُل قرضہ 24 ہزار 952 ارب روپے تھا اس میں عمران خان نے 20 ہزار ارب کا اضافہ کردیا، جتنا قرضہ 71 سالوں میں پاکستان کے تمام وزرائے اعظم نے لیا اکیلے عمران خان نے پونے 4 سال میں اس کا 80 فیصد قرضہ لے لیا، پھر قرضہ کم کرنے کا بھاشن دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل کہا تھا کہ ہم محصولات کو دوگنا کردیں گے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام تک ہم نے 3 ہزار 842 ارب روپے کے محصولات اکٹھا کیے تھے جو کہ دوگنا اضافہ تھا، جبکہ محصولات اور جی ڈی پی کا تناسب 8.5 فیصد سے بڑھا کر 11 فیصد کردیا تھا۔
ان کے مطابق عمران حکومت کے 2 ہزار ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے باوجود ٹیکس اور جی ڈی پی تناسب 11 فیصد سے کم رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ شوکت ترین صاحب نے فرمایا تھا کہ ہم سبسڈی کے لیے پیسے چھوڑ کر گئے تھے تو بتا دیں کہ وہ پیسے کہاں رکھے ہوئے ہیں، آئی ایم ایف سے دسمبر میں وعدہ کیا تھا کہ 25 ارب روپے کا پرائمری خسارہ ہوگا اور تقریبا 4 ہزار ارب روپے کا مجموعی خسارہ ہوگا، پرائمری خسارہ 25 ارب سے بڑھ کر ایک ہزار 320 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، ہم کیسے اس خسارے کو کم کریں گے؟
’18 مئی کو قطر میں آئی ایم ایف سے ملاقات کریں گے‘
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے آتے کے ساتھ ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے اور ایک سال پروگرام بڑھانے اور 2 ارب ڈالر اضافے کی بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم 18 مئی کو قطر میں آئی ایم ایف مشن سے ملاقات کرکے کوئی حل نکالیں گے، ہماری پوری کوشش ہوگی کہ آئی ایم ایف سے بات کریں کیونکہ جو وعدے عمران خان بطور وزیر اعظم کر کے گئے تھے ہم ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر خوش اسلوبی سے معاملات کو حل کریں گے اور مہنگائی پر قابو پائیں گے۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ عمران خان نے اخراجات میں کمی نہیں کی، ان کے مطابق نواز شریف کا شاہی خرچ تھا، عمران خان نے خرچہ اس طرح کم کیا کہ پہلے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اخرجات وزیر اعظم ہاؤس میں شمار کیے جاتے تھے، لیکن اب علیحدہ شمار کیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مرغی، ٹماٹر یا کسی بھی چیز کی قیمت میں اضافے کی ذمہ داری شہباز شریف سمیت پوری کابینہ پر ہے، ہم عوام کی زندگی آسان بنانے آئے ہیں اور بنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ہمیں بہت ساری چیزیں سکھانی چاہئیں کہ 2 سال میں ریئل اسٹیٹ میں لوگوں نے اربوں روپے کیسے کما لیے، ٹیکس فارم نہیں بھرے اور پتا چلا کہ 20 سال سے ریئل اسٹیٹ میں کام کر رہے تھیں، یہ سب چیزیں آپ ہمیں سکھا سکتے ہیں لیکن خدا کا واسطہ ہے ہمیں معیشت کے بارے میں مت بتاؤ۔