مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی نے اندراج مقدمہ کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
پرویز الہٰی کی جانب سے اندراج مقدمہ کی درخواست نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب، ایس ایس پی اور دیگر کے خلاف دائر کی گئی ہے۔
چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے عامر سعید راں نے درخواست دائر کی، جس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین صوبائی اسمبلی سمیت 200
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار وزارت اعلیٰ پنجاب کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کا امیدوار تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ 16 اپریل کو مخالف امیدوار حمزہ شہباز کی ہدایات پر آئی جی، چیف سیکریٹری پنجاب 200 سے 300 مسلح پولیس اہلکاروں اور سادہ لباس میں ملبوس غنڈہ عناصر کے ہمراہ پنجاب اسمبلی کے احاطے میں داخل ہوئے جہاں وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہونا تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ حمزہ شہباز کی ہدایات پر مسلم لیگ (ن) کے اراکین صوبائی اسمبلی نے چیف سیکریٹری پنجاب کامران افضل، ڈپٹی کمشنر عمر شیر چٹھہ کی ملی بھگت سے دیگر غنڈہ عناصر کے ساتھ مل کر درخواست گزار اور ان کے اراکین صوبائی اسمبلی پر حملہ کردیا جس سے کچھ خواتین اراکین اسمبلی بھی زخمی ہوئیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ سارا معاملہ مختلف ٹی وی چینلز پر نشر ہوا جس سے عوام میں خوف پیدا ہوا۔
نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مجرمان کے خلاف متعلقہ تھانہ میں اندراج مقدمہ کی درخواست دائر کی لیکن پولیس ہماری درخواست پر کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ برائے مہربانی ہماری درخواست قبول کر کے فریقین کو مجرمان کے خلاف قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنےاور سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی جائے۔
پس منظر
خیال رہے کہ پنجاب اسمبلی میں سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے استعفے کے بعد نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہو رہا تھا جہاں اجلاس کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی ایوان میں ماحول کشیدہ ہوگیا۔
اجلاس کی صدارت کے لیے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری ایوان میں پہنچے تو پی ٹی آئی کے حکومتی اراکین اسمبلی نے ڈپٹی اسپیکر کی نشست کا گھیراؤ کیا، اس دوران ان کی جانب لوٹے بھی اچھالے گئے اور ان کے بال بھی نوچے گئے، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کو سخت سیکیورٹی میں ایوان سے باہر لے جایا گیا۔
اسی دوران حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان ہاتھا پائی بھی شروع ہوگئی، صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایس ایس پی آپریشنز کے ہمراہ پنجاب پولیس کی بھاری نفری پنجاب اسمبلی پہنچ گئی۔
اسمبلی میں موجود پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ن) پر پولیس کو ایوان کے اندر لانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پولیس ایوان میں آئی ہے‘۔
شدید ہنگامہ آرائی کے بعد ڈپٹی اسپیکر اسمبلی سے روانہ ہوگئے تھے جبکہ ترجمان پنجاب اسمبلی کی جانب سے کہا گیا کہ جب تک ووٹنگ نہیں ہو گی اجلاس ملتوی نہیں ہو گا۔
بعد ازاں بلٹ پروف جیکٹس میں ملبوس اینٹی رائٹ فورس کے اہلکار پنجاب اسمبلی کے پرانے گیٹ سے ایوان میں داخل ہوئے، پولیس نے ارکان صوبائی اسمبلی کو اسپیکرڈائس سے ہٹایا اور اسپیکر ڈائس کا کنٹرول سنبھال لیا۔
دوسری جانب ایوان میں ہنگامہ آرائی کے دوران وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی بھی ہنگامہ آرائی کی زد میں آگئے اور تشدد سے زخمی ہوئے اور انہیں ایوان سے باہر لے جایا گیا۔
ڈپٹی اسپیکر نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ شروع کرائی تو پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا لیکن ووٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔
ڈپٹی اسپیکر نے ووٹنگ کے بعد اعلان کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر حمزہ شہباز کو 197 ووٹ ملے اور وہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں۔
جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے حمزہ شہباز کی جیت کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔