پنجاب اسمبلی کی دیواروں پر کانٹے دار تار بچھا دی گئی اور مرکزی دروازے کو بند کردیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے مقامی ہوٹل میں اسمبلی کا اجلاس منعقد کیا جارہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سےٹوئٹر پر جاری ایک ویڈیو میں وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے اپوزیشن کے امیدوار اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نائب صدر حمزہ شہباز اور دیگر اراکین صوبائی اسمبلی کے ہمراہ اجلاس میں شرکت کے لیے بس میں سوار ہیں۔
مریم نواز نے ٹوئٹر پر لکھا کہ میاں نواز شریف کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں۔مریم نواز نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ ‘پنجاب اسمبلی کا ابھی ہونے والا اجلاس علامتی نہیں بلکہ آئینی اور قانونی اجلاس ہے، مسلم لیگ (ن) اپنی اکثریت ثابت کرنے جا رہی ہے’۔
اپوزیشن کے اجلاس کے اعلان کے بعد پنجاب اسمبلی کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد آ جائے تو وہ کسی اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی طور پر ڈپٹی اسپیکر کسی بھی اجلاس کی صدارت کے مجاز نہیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔
دوسری جانب پنجاب اسمبلی کو خار دار تاروں سے سیل کردیا گیا ہے اور عمات کے باہر پولیس کی بھاری نفری کو لاٹھیوں اور شیلڈز کے ساتھ تعینات کردیا گیا ہے، واٹر کینن اور ریسکیو 1122 کی گاڑیاں بھی اسمبلی کی عمارت کے باہر کھڑی ہیں۔
صوبائی اسمبلی سیل کرنے کے اقدامات ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے آج ساڑھے 7 بجے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس بلانے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب اسمبلی ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے اسمبلی اجلاس کی تردید کردی تھی۔
پنجاب اسمبلی سیل کرنے پر پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ‘قبضہ کرنے میں 30 سیکنڈ لگ سکتے ہیں تو اس کو غیر مؤثر کرنے کے لیے بھی 30 سیکنڈز لگنے چاہیئں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘انصاف میں تاخیر انصاف کی فراہمی سے انکار ہے’۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والی آئین کی منسوخی کے بعد آج پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی سے باہر روک دیا گیا ہے جب وزیراعلیٰ کے لیے ووٹنگ کا دن ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘عوامی ایوان کے اطراف خار دار تار بچھائی گئی ہے’۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ وہ حمزہ شہباز کی حمایت کرنے کے لیے 7 بجے پنجاب اسمبلی پہنچیں گی، جو وزیراعلیٰ کے امیدوار ہیں۔
انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘حمزہ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے، جنہیں واضح اکثریت حاصل ہے، میں 7 بجے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جاؤں گی، ان شااللہ’۔
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے ڈپٹی اسپیکر کےخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی تھی.
ڈپٹی اسپیکر کو نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے اجلاس سے روکنے کے لیے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے ان کے اختیارات بھی واپس لے لیا تھا.
اسپیکر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ ‘پچھلے حکم کو روکنے اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر کے رول 15 کو 235 کے ساتھ ملا کر، میں پرویز الہیٰ، اسپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب کی حیثیت سے ڈپٹی اسپیکر کو رول 25 کے تحت حاصل اختیارات واپس لیتا ہوں، جس کا نفاذ فوری ہوگا’۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اسپیکر پرویز الہٰی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ہے.
خیال رہے کہ گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب عمل میں لائے بغیر اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل تک مؤخر کردیا تھا.
ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کی جانب سے جاری احکامات میں کہا گیا تھا کہ ‘صوبائی اسمبلی پنجاب کے رولز اینڈ پروسیجر 1997 کے رول 25 بی کے تحت حکم دیا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے 40 ویں سیشن کا اگلا اجلاس 6 اپریل 2022 کے بجائے ہفتہ 16 اپریل 2022 کو اسمبلی چیمبرز میں ہوگا’۔
اس سے قبل 3 اپریل کو بھی ہنگامی آرائی کے بعد اجلاس وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کے بغیر ملتوی کردیا گیا تھا۔
ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری کے زیر صدارت تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزادر، وزیر اعلیٰ کے امیدواروں چوہدری پرویز الہٰی اور حمزہ شہباز سمیت ارکان نے شرکت کی تھی۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا ون پوائنٹ ایجنڈا وزیراعلیٰ کا انتخاب تھا تاہم گھنٹی بجنے کے بعد اجلاس شروع ہونے پر ایوان میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی اور اسپیکر کی جانب سے ہنگامہ آرائی پر اجلاس 6 اپریل تک ملتوی کردیا گیا تھا۔
اس سے ایک روز قبل بھی وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے منعقد ہونے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کے سبب ملتوی کردیا گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کا چناؤ
گزشتہ ماہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے تحریک عدم اعتماد پر مستعفی ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے لیے نئے سربراہ انتخاب کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار کے طور پر مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ پی ایم ایل این نے حمزہ شہباز کو نامزد کیا ہے۔
حمزہ شہباز کو پی ٹی آئی کے منحرف اراکین، جہانگیر ترین اور علیم خان گروپس کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی دوڑ میں ان کے آگے بڑھنے کی توقع ہے۔
وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے امیدوار کو 371 ایوان میں موجود اراکین میں سے 186 اراکین کے ووٹ درکار ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 183، مسلم لیگ (ق) کے 10، مسلم لیگ (ن) کے 165، پیپلز پارٹی کے 7 اراکین موجود ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلی میں5 آزاد اراکین ہیں اور ایک تعلق راہِ حق پارٹی سے ہے۔
وزیر اعلیٰ کی نشست پر ہار یا جیت کا فیصلہ جہانگیر ترین کی حمایت پر منحصر ہے، جن کے کہنا ہے کہ ان کے پاس کم ازا کم 16 اراکین صوبائی کے اسمبلی کے ووٹ ہیں۔