مونس الٰہی کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے بھی عمران خان کا جنرل باجوہ پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام مسترد کردیا، پنجاب اسمبلی فوری تحلیل کیے جانے کی نفی بھی کردی۔
ایک انٹرویو میں پرویز الٰہی نے کہا کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کا ساتھ دینےکا کہا، ن لیگ کی طرف جاتے جاتے اللہ نے راستہ تبدیل کیا اور راستہ دکھانے کیلئے باجوہ صاحب کو بھیج دیا۔
پرویز الٰہی نے یہ بھی کہا کہ چوہدری شجاعت حسین کو جنرل باجوہ کا کوئی فون نہیں آیا، عمران خان کی یہ بات درست نہیں کہ جنرل باجوہ ہمیں عمران کے ساتھ جانے اور دوسرے گروپ کو ن لیگ کی طرف جانے کا کہہ رہے تھے۔
پرویز الٰہی نے بتایا کہ جنرل باجوہ کو انہوں نے خود فون کیا تھا، ادارے نے کہا کہ عمران خان کا ساتھ دینےکا راستہ آپ کیلئے بہتر راستہ ہے۔
علاوہ ازیں وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے کہا کہ الیکشن چار ماہ سے پہلے تو ہو ہی نہیں سکتے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کام کیلئے وقت چاہیے، اگلے سال اکتوبر کے بعد بھی الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
خیال رہے کہ جنرل باجوہ سے متعلق پی ٹی آئی قیادت کے منفی بیانات پر عمران خان کے اتحادی اور ق لیگ کے رہنما مونس الہٰی نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ تحریک عدم اعتماد کے وقت بھی انھیں کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ جائیں۔
ہفتے کو عمران خان نے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ساڑھے 3 سال حکومت میں رہا، مجھے علم ہے یہ کیسے آپریٹ کرتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ مونس الٰہی کو کہا گیا ہو کہ پی ٹی آئی کی طرف جاؤ ، ق لیگ میں دوسرے کو بھی کہا گیا ہوگا کہ ن لیگ میں چلے جاؤ ، ہمارے اپنے لوگوں کو کسی کو کچھ پیغام اور کسی کو کچھ پیغام جارہا تھا، جتنی ڈبل گیم جنرل باجوہ نے کھیلی، کبھی کسی کو کچھ کہیں کچھ،عجیب رویہ تھا، آخر میں ہوا کیا، فائدہ تو نہیں ہوا بے نقاب تو ہوگئے۔‘
سابق وزیراعظم نے مزید کہا تھا کہ ’جب ڈائری اٹھا کر پی ایم ہاؤس سے نکلا تو اللہ نے وہ عزت دی جس کا تصور نہیں کیا تھا، جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی، تب بھی سوچتا تھا کہ فوج میں کسی کو توسیع نہیں ملنی چاہیے مگر حالات ایسے بنادیے گئے تھے، توسیع کیلئے جس طرح ن لیگ و دیگر نے ووٹ ڈالے اس کے بعد مجھے لگا کہ انھوں نے ن لیگ سے بھی بات چیت شروع کردی ہے، میرے خیال میں انہوں نے ن لیگ کو بھی کوئی یقین دہانی کرائی ہوگی، جنرل فیض کو ہٹایا گیا تب کلیئر ہوگیا کہ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا مجھے ہٹانے کا۔‘