عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں لائیں جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں اضافہ اور توسیع کی خواہاں ہے۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جیہاد آزور نے بتایا کہ ہماری ٹیم نئی حکومت کی پالیسی ترجیحات اور یوکرین کی جنگ کی روشنی میں معیشت پر پڑنے والی اثرات کا جائزہ لے گی۔ان کاکہنا تھا کہ لیکن ہم گزشتہ چند مہینوں سے کرنٹ اکاؤنٹ کی صورت حال قابو میں رکھنے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کی اہمیت اجاگر کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے پالیسی ایکشنز پر وضاحت نہیں دی لیکن آئی ایم ایف نے اس سے پہلے کہا تھا کہ مارکیٹ کا طے کردہ ایکسچینج ریٹ اور مؤثر میکراکنامک پالیسی کے تسلسل سے خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں مالی سال کے 9 ماہ میں 13.2 ارب ڈالر تک بڑھ گیا ہے، جس میں ایک برس قبل تیل کی درآمدی قیمتوں کے بڑھنے سے پہلے 27 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا فرق تھا۔
ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی پیش گوئی ہے کہ خسارہ 30 جون کو رواں مال کے اختتام تک گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ کی 5 سے 6 فیصد تک بڑھ جائے گا، جس کے بارے میں پہلے 4 فیصد کی پیش گوئی تھی اور اس سے پاکستان کے ذخائر پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
نئی حکومت کو بدترین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جہاں رواں مالی سال کے اختتام پر ان کا مالی خسارہ جی ڈی پی کے 10 فیصد سے بڑھ جائے گا۔
وزیرخزانہ مفتاح اسمٰعیل نے رواں ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم کے ساتھ پروگرام میں 6 ارب ڈالر سے اضافہ اور توسیع کے لیے بات کی ہے۔
پاکستان کو تیل اور گیس کی مد دی جانے والی سبسڈیز پر مخصوص اقدامات کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر آئی ایم ایف کے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جیہاد آزور نے کہا تھا کہ ان معاملات پر مئی میں پاکستان کے دورے کے موقع پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ان مسائل پر بات کریں گے اور میں اسی لیے ان مذاکرات کے حوالے سے پہلے سے بات نہیں کروں گا۔
آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کے بعد وزیرِمملکت عائشہ غوث پاشا اور امریکا میں پاکستان کے سفیر مسعود خان کے ہمراہ واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ ہمیں آئی ایم ایف کی شرائط اور پاکستان کی معاشی پوزیشن بہتر کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے گزشتہ 70 سال کے دوران کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا اور نہ ہی ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خدشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ملک کا بجٹ خسارہ بہت زیادہ ہے، ملک کے قرضے بہت بڑھ گئے ہیں، ہم کوشش کریں گے کہ خسارہ کم سے کم کریں اور قومی آمدنی کو بڑھائیں۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت سماجی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ بند نہیں کرے گی، ملک میں کارخانوں کی تعداد بڑھانے پر کام شروع کریں گے تاکہ لنگر خانے کم ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ٹارگٹڈ سبسڈی دینی چاہیے، ہر گاڑی والے کو پیٹرول پر سبسڈی نہیں دینی چاہیے، ہم ایسا کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ جب ہم حکومت چھوڑ کر جائیں تو اس وقت زر مبادلہ کے زیادہ ذخائر چھوڑ کر جائیں، شہباز شریف کو زر مبادلہ کےذخائر 10 عشاریہ 8 ارب ڈالر ملے تھے، کوشش کریں گے کہ جب ہم حکومت چھوڑ کر جائیں تو اس سے زیادہ ذخائر ہوں، ہمیں 4 فیصد کا گروتھ ریٹ ملا تھا ، کوشش ہے کہ اس کو زیادہ چھوڑ کر جائیں اور مہنگائی کی شرح بھی پی ٹی آئی حکومت سے کم سطح پر چھوڑ کر جائیں۔
مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق اسٹیٹ بینک کو مکمل خود مختاری دی جاچکی ہے، عمران خان کی حکومت نے جو معاہدے کیے وہ ہم نبھانے کے پابند ہیں کیونکہ یہ معاہدے عمران خان کے نہیں بلکہ حکومت پاکستان نے کیے تھے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے پروگرام کو آگے بڑھانےکی درخواست کی ہے۔