وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقے میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے کی حوصلہ شکنی کے لیے پاکستان، افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف دیکھ رہا ہے کہ وہ اس پر اپنا کردار ادا کرے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی صحافی کرسٹین امن پور کے ساتھ انٹرویو میں جب بلاول سے پوچھا گیا کہ وہ افغان طالبان کی حکومت کو ان رپورٹس کے سامنے آنے کے بعد کس طرح دیکھتے ہیں کہ کابل نے پاکستانی فوج اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے، وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ہم نہ صرف اس صورتحال کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی طرف سے کام کر رہے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کی کوشش کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان کی حکومت عالمی برادری سے اپنے اس وعدے پر قائم رہے گی کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
وزیر خارجہ سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کو کابل کی موجودہ انتظامیہ کو قبول کرنے میں کیا چیز روک رہی ہے تو اس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کے بعد کیا جائے گا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کی روشنی میں ہم بات چیت کرنے کا کہتے رہتے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا اسلام آباد نے افغان طالبان کے ساتھ اس حوالے سے بات کی ہے کہ مسلم ممالک کس طرح خواتین کو حقوق دے سکتے ہیں، وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ مغرب کا مسئلہ نہیں ہے، میں خواتین کے حقوق یا ان کی تعلیم کے حقوق کو اسلام میں ہمیں دیے گئے حقوق کے طور پر دیکھتا ہوں، ہم اس بات پر زور دیں گے کہ طالبان اپنے بین الاقوامی وعدوں پر عمل کریں اور افغانستان کی خواتین کے حقوق کو یقینی بنائیں۔
صحافی امن پور کے اس تبصرے پر کہ امریکا کا خیال ہے کہ پاکستان نے کئی دہائیوں تک افغان طالبان کی حمایت میں ایک ’انتہائی خطرناک کردار‘ ادا کیا ہے، بلاول نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مسلسل تعلقات رکھے ہیں، قطع نظر اس کے کہ کوئی بھی اقتدار میں ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے اس بات کے حامی رہے ہیں کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ، تنازع کا حل بات چیت اور سفارت کاری میں ہے اور بالآخر اس پوزیشن کو برقرار رکھنے پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود عالمی برادری بھی اسی راستے پر آگئی کہ افغانستان میں تنازعات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے یہی راستہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کابل میں جو بھی پیش رفت ہوتی ہے اس کا براہ راست اثر پاکستانی عوام پر آتا ہے، وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہمیں افغانستان میں انسانی بحران کو کم کرنے کو ترجیح دینی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی معاشی بحران نہ ہو اور طالبان کو عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں پر قائم رکھیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ پاکستان نہیں بلکہ امریکا تھا جس کا کابل پر قبضے سے قبل طالبان سے براہ راست رابطہ تھا، پاکستان اور عالمی برادری کا خیال ہے کہ اگر ہم افغانستان کے لوگوں کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیتے ہیں تو یہ ہمارے کسی بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔