پاکستان جولائی کیلئے تین ایل این جی کارگو کی خریداری میں ناکام

بڑے پیمانے پر بجلی کی قلت کے دوران پاکستان ایل این جی کے تین سلاٹس کے لیے بولی لگانے والے کو تلاش کرنے میں ناکام رہا اور جولائی کے آخری ہفتے کے لیے ایک اور سلاٹ کے لیے اب تک کے بلند ترین نرخ حاصل کیے کیونکہ یورپی صارفین نے روسی سپلائی سے پڑنے والے خلل کی تلافی کرنے کے لیے اسپاٹ مارکیٹ کی مقدار میں اضافہ کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان ایل این جی لمیٹڈ نے جولائی کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں ایک، ایک آخری ہفتے میں دو کارگوز کے لیے 16 جون کو ٹینڈر جاری کیا تھا لیکن 2-3 جولائی، 8-9 جولائی اور 25-26 جولائی کے لیے کوئی بولی لگانے والا سامنے نہیں آیا۔پی ایل ایل کی جانب سے جولائی کے پہلے ہفتے میں ایل این جی کارگو حاصل کرنے کی یہ تیسری ناکام کوشش تھی، اس سے پہلے 31 مئی اور 7 جون کو جاری کیے گئے دو ٹینڈرز نے بالترتیب دو اور ایک بولی دہندہ کو راغب کیا لیکن کوئی بھی تکنیکی طور پر جوابدہ نہیں تھا، اس لیے بولیاں بغیر کھولے واپس کردی گئیں۔

اس بار 30-31 جولائی کے لیے واحد بولی قطر انرجی ٹریڈنگ کی تھی، یہ 39.8 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ کی ریکارڈ بلند قیمت پر آئی، ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے اتنی بڑی قیمت قبول کرنا مشکل ہوگا کہ اسے لوڈشیڈنگ کرنی چاہیے یا دوسرے ایندھن سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنی چاہیے۔

پاکستان نے 2015 میں ایل این جی کی درآمد شروع کرنے کے بعد سے اب تک کی سب سے زیادہ بولی نومبر 2021 میں 30.65 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو قبول کی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے پروڈیوسرز کے علاوہ اسپاٹ مارکیٹ میں سپلائی کرنے والے افراد امریکی حکومت کے بھی زیر اثر ہیں کہ وہ یورپی ممالک کو ایل این جی کی زیادہ سے زیادہ سپلائی یقینی بنائیں جو کہ روس سے سپلائی میں رکاوٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی قیمت پر ایل این جی اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔

سستے طویل مدتی معاہدوں سے آنے والے کارگوز کی ایک بڑی اکثریت کے باوجود پاکستان میں ریگیسیفائیڈ ایل این جی کی قیمتیں حالیہ مہینوں میں پہلے ہی 40 فیصد بڑھ کر 22-24 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ چکی ہیں۔

کوئلے اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر ان ایل این جی کے نرخوں نے بجلی کے ایندھن کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ کر دیا ہے، جو کہ سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی طرف سے دعوی کردہ 7.95 روپے فی یونٹ اور کے الیکٹرک لمیٹڈ کی جانب سے اگلے مہینے 11.38 روپے فی یونٹ اضافی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ سے ظاہر ہوتا ہے۔

پاکستان کے قطر کے ساتھ دو طویل المدتی معاہدے ہیں، ایک میں چھ ماہانہ کارگو شامل ہیں جن میں برینٹ کے 13.37 فیصد پر سابقہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دستخط کیے تھے اور دو ماہانہ کارگوز جس پر پی ٹی آئی حکومت نے برینٹ کے 10.2 فیصد پر معاہدہ کیا تھا، مہینے میں باقی چار کارگو کا انتظام زیادہ تر اسپاٹ ٹینڈر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

ایل این جی کے سرکاری درآمد کنندگان پی ایس او اور پی ایل ایل مہنگی درآمدات پر بھی راضی ہوں گے کیونکہ وہ بالترتیب 3.22 فیصد اور 3 فیصد کی شرح سے اکاؤنٹ برقرار اور مارجن پر منافع کماتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ زیادہ درآمدی قیمتوں کے ساتھ بڑھ جاتی ہے۔

پاکستان حالیہ مہینوں میں روزانہ تین سے سات گھنٹے تک بجلی کی بندش کی لپیٹ میں ہے، پچھلی حکومت نے زیادہ قیمتوں کی وجہ سے اسپاٹ ایل این جی ٹینڈرز کا آرڈر دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جبکہ بین الاقوامی منڈی میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے طویل مدتی سپلائرز سردیوں میں تقریباً ایک درجن بار نادہندہ ہوئے۔ حکام ایل این جی کے فرق کو پورا کرنے کے لیے فرنس آئل کا بندوبست کرنے کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں، اضافی ماہانہ فیول لاگت ایڈجسٹمنٹس ریفرنس پرائس سے دگنی ہوچکی ہے۔

یومیہ 900 ملین مکعب فٹ تک پاور سیکٹر کی طلب کے برخلاف گیس کمپنیوں کو اس طلب کا آدھا بھی پورا کرنے میں جدوجہد کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پی ایس او کی وصولی 600 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے اور پٹرولیم ڈویژن نے لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے کے لیے ایندھن کی درآمدات کے حوالے سے بتایا کہا اگلے مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے لیے تقریباً 19کھرب 80ارب روپے کی مجموعی لیکویڈیٹی کی ضرورت ہے۔

جون سے ستمبر تک حکومت نے ابتدائی طور پر پاور سیکٹر کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ہر ماہ زیادہ سے زیادہ 12 ایل این جی کارگوز کا بندوبست کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، روس یوکرین جنگ اور عالمی طلب و رسد کے محرکات کی وجہ سے اسپاٹ ایل این جی کارگوز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے یہ پاکستان کی قوت خرید سے باہر ہو چکے ہیں، ایل این جی کے علاوہ پی ایس او فرنس آئل بھی درآمد کر رہا ہے جس سے اس کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پی ایس او اور پی ایل ایل نے موسم گرما کے مہینوں کے دوران اپنی تخمینی لیکویڈیٹی کی ضروریات پیش کی ہیں جس کے تتح پاکستان اسٹیٹ آئل کو ایل این جی اور فرنس آئل دونوں کی مد 17کھرب روپے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب پی ایل ایل نے چار ماہ کے لیے کل 278 ارب روپے مانگے ہیں جن میں رواں ماہ کے 98 ارب روپے، جولائی میں 44 ارب روپے، اگست میں 80 ارب روپے اور ستمبر کے 56 ارب روپے شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں