ٹریژری بل کی شرح میں غیر متوقع اضافے کے بعد پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بی) کے منافع میں 145 بیسس پوائنٹس تک کا اضافہ ہوا ہے جو اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ شرح سود میں اضافہ ہونے والا ہے۔رپورٹ کے مطابق جمعرات کو ہونے والی پی آئی بی کی نیلامی نے مزید واضح کیا ہے کہ نئی حکومت ریونیو پیدا کرنے کی جلدی میں ہے کیونکہ اس نے ہدف کے لیے مقررہ رقم سے تین گنا زیادہ جمع کیا ہے۔مختصر مدت میں زیادہ سے زیادہ قرض لینے کی دوڑ نے بینکوں کو زیادہ منافع کی مانگ میں اضافہ کرنے کی اجازت دی ہے، جسے ٹریژری بلز اور پی آئی بیز دونوں میں قبول کیا گیا ہے۔
تازہ ترین نیلامی میں تین سالہ پی آئی بیز پر کٹ آف پیداوار 145 بیس پوائنٹس بڑھ کر 13.3 فیصد ہو گئی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے اکٹھی کی گئی رقم 26.92 ارب روپے تھی۔
حکومت نے 5 سالہ پی آئی بیز کے لیے 1062.75 ارب اور 10 سال کے لیے 286.16 ارب روپے اکٹھے کیے۔
پانچ سالہ مدت میں منافع 120 بی پی ایس سے بڑھ کر 12.95 فیصد ہوگیا اور 10 سالہ مدت میں 141بی پی ایس اضافے سے 13.15 فیصد ہوگیا۔
پانچ سالہ پی آئی بیز کے لیے 62.75 ارب روپے اور 10 سالہ بانڈز کے لیے 286.16 ارب کی منظور شدہ بولیاں تھیں تاہم، 15، 20 اور 30 سالہ مدت کے لیے کوئی بولی موصول نہیں ہوئی۔
حکومت نے 100 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں پی آئی بی نیلامی کے دوران 375.8 ارب روپے اکٹھے کیے۔
بدھ کو حکومت نے ٹریژری بل کی شرح میں 129 بی پی ایز تک اضافہ کیا، تین، چھ اور 12ماہ کے پیپرز کے لیے کٹ آف کی پیداوار بالترتیب 14.79 فیصد، 14.99فیصد اور 14.81فیصد ہو گئی۔
بینچ مارک چھ ماہ کی ٹریژری بلز پر واپسی اب اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ سے 274 بی پی ایس زیادہ ہے، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بڑے فرق کا مطلب یہ ہے کہ شرح سود میں جلد اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں مرکزی بینک نے شرح سود کو 250 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 12.25 فیصد کر دیا، اس وقت صورتحال مختلف نہیں تھی کیونکہ اس وقت ٹریژری بلز اور پی آئی بی کی شرح دونوں پالیسی شرح سود سے بہت آگے بڑھ چکے تھے۔
اس کے بعد اسٹیٹ بینک نے صورتحال کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مانیٹری پالیسی کے مطابق نہیں ہے۔
منی ڈیلرز اور محققین نے بتایا کہ بینچ مارک 6 ماہ کے لیے کراچی انٹربینک کی پیشکش کردہ شرح، یا کائبور بدھ کو 14.96 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو 31 جنوری 2009 کے بعد سے بلند ترین سطح ہے جب کائبور 15.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔
ٹریژری بلز پر ریٹرنز نے بھی 24 سال میں تقریباً 15 فیصد کی بلند ترین سطح کو چھو لیا ہے، اب پی آئی بیز کی پیداوار میں اضافے نے تجزیہ کاروں کے ان جائزوں کی تائید کی ہے کہ شرح سود میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ 12.7 فیصد پر موجود بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنا ضروری ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ مبینہ طور پر حکومت پر زور دے رہا ہے کہ وہ مالیاتی خسارے کو کم کرے۔
تاہم، حکومت مہنگائی اور مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے پیسے کی قیمت میں اضافہ کر رہی ہے، مہنگائی میں اضافے سے تجارت اور صنعت متاثر ہوگی جبکہ پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر ریلیف ختم کرنے سے مہنگائی کا مزید دباؤ متوقع ہے۔
حکومت نے پہلے ہی بجلی کے نرخوں میں اضافے کی اجازت دے دی ہے اور وہ فیصلہ فی الفور لاگو کیا گیا ہے۔
اگرچہ نئی حکومت اعلیٰ سیاسی اور اقتصادی لاگت کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافے سے گریزاں ہے لیکن مالیاتی حلقوں میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عیدالفطر کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔