پاور سیکٹر کے ملازمین کیلئے مفت بجلی کی سہولت ختم کرنے کی ہدایت

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کو ہدایت کی ہے کہ ملازمین کو مفت بجلی کے یونٹس دینے کی سہولت ختم کردی جائے۔

رپورٹ کے مطابق پی اے سی جو قومی خزانے پر نظر رکھنے میں پارلیمان کی مدد کرتی ہے، نے تجویز دی کہ ملازمین کو بجلی کے مفت یونٹس کی جگہ رقم فراہم کردی جائے۔

کمیٹی نے وزارت مواصلات اور پاور ڈویژن کی سال 20-2019 کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لیا۔

اجلاس میں سربراہی پی اے سی کے چیئرمین نور عالم خان نے کی جنہوں نے پاور ڈویژن کے سیکریٹری کو بجلی کے مفت یونٹ کی فراہمی ختم کرنے کی ہدایت کی تاہم سیکریٹری نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سہولت اچانک واپس لینے سےملازمین میں اضطراب پیدا ہوگا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن رمیش کمار نے سیکریٹری کو کہا کہ سہولت واپس لینے پر یونین یا کسی بھی حلقے کا دباؤ نہ لیں۔

کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ ملازمین کو مفت بجلی کی جگہ اس کے برابر رقم ان کی ماہانہ تنخواہوں میں دی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اور نجی شعبے میں کم آمدنی والے ملازمین کو اپنے تمام یوٹیلیٹی بلز خود بھرنے پڑتے ہیں اس لیے پاور سیکٹر کے ملازمین کو بھی اس سے استثنیٰ نہیں ہونا چاہیے۔

کمیٹی کو موجودہ توانائی بحران پر بریفنگ دیتے ہوئے سیکریٹری پاور ڈویژن نے انکشاف کیا کہ سسٹم کو ہر سال 10 کھرب روپے کا نقصان ہوتا تھا جو آئندہ سال 20 کھرب تک پہنچنے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ نقصان کی بڑی وجہ نان ریکوری ہے۔

ڈویژن کی جانب سے پی اے سی میں جمع کرائی گئی ایک ریکوری رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 19-2018 میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 93 ارب 16 کروڑ روپے کے واجبات تھے لیکن کمپنیاں 4 لاکھ 11 ہزار 177 نادہندگان سے رقم وصول کر پائیں نہ ان کے کنیکشنز کاٹے گئے۔

لوڈشیڈنگ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سیکریٹری نے کہا کہ جن علاقوں میں زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے وہاں بجلیکی بندش زیادہ ہے۔

اجلاس کے دوران پی اے سی چیئرمین نے کے الیکٹرک عہدیداروں کی سرزنش کی اور سی ای او کی اجلاس میں عدم موجودگی پر ناراضی کا اظہار کیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کے الیکٹرک کے سربراہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں نہیں آئے تو ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں گے۔

کے الیکٹرک کے چیف فنانشل آفیسر نے کمیٹی کو بتایا کہ کمپنی کے سی ای او کو وزیراعظم ہاؤس میں ایک دوسرے اجلاس میں شرکت کرنی تھی اس لیے وہ اجلاس میں نہیں شریک ہوئے۔

مواصلات ڈویژن کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیتے ہوئے پی اے سی چیئرمین نے جی ٹی روڈ کی دیکھ بھال اور مرمتی کام کے معیار پر ناراضی کا اظہار کیا۔

انہوں نے موٹرویز پر ہیوی ٹریفک کی خلاف ورزی اور بسوں، ٹرکوں کے آزادی کے ساتھ اسپیڈ لین استعمال کرنے پر نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور موٹر وے پولیس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں