لاہور ہائیکورٹ نے پاسپورٹ بلیک لسٹ کرنےکاقانون کالعدم قرار دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے بلیک لسٹ مفرورملزم کے پاسپورٹ کی عدم تجدیدکیخلاف درخواست پر فیصلہ جاری کیا جس میں نواز، شہباز کیسزپر اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کے حوالے بھی فیصلے کا حصہ ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہےکہ پاسپورٹ ایکٹ میں بلیک لسٹ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بلیک لسٹ قانون ختم کرنے پر اس کے سنگین اثرات کا خدشہ ظاہر کیا،خدشات کی بنیاد پر ریاستی مداخلت کے خلاف بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ ترجیح ہے، قانون میں اگر کوئی خامی ہو تو پارلیمنٹ کو اپنا کردار اد اکرنا چاہیے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہےکہ مسلم لیگ نوازکیس2007 میں سپریم کورٹ آزاد معاشرےکیلئے بنیادی انسانی حقوق کو ریاستی مداخلت پرترجیح دےچکی، بنیادی آئینی حقوق آئین کے دل اور روح ہوتے ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سفر کرنے کا حق عالمی طور پر بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جا چکا ہے اور کسی بھی شہری کا سفر کرنا اور بیرون ملک جانا بنیادی حقوق کے آرٹیکل کاجز ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق پاسپورٹ ایکٹ 1974، ای سی ایل آرڈیننس 1981 بیرون ملک سفر سے متعلق قوانین ہیں، حکومت کسی بھی شہری کا پاسپورٹ منسوخ کرنے سے دو ہفتے قبل اظہار وجوہ کا نوٹس دینے کی پابند ہے، وفاقی حکومت بغیرنوٹس صرف ایسے شہری کا پاسپورٹ منسوخ کرے جو ملکی مفاد کے خلاف کام کررہا ہو۔
عدالت کاکہنا ہے کہ وفاقی حکومت پاسپورٹ ایکٹ کی دفعہ 8 کے تحت صرف پاسپورٹ قبضے میں لے سکتی یا منسوخ کر سکتی ہے، پاسپورٹ ایکٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ کسی شہری کو بلیک لسٹ کیا جائے، ایگزٹ کنٹرول آرڈیننس 1981 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی شہری کو بیرون ملک سفر کرنے سے ہی روک سکتی ہے، حکومت صرف سنگین جرائم میں ملوث افراد کے نام ہی ای سی ایل میں شامل کر سکتی ہے۔