‘پارٹی گیٹ’ اسکینڈل کے بعد بورس جانسن کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

برطانیہ کی حکمراں جماعت کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ‘پارٹی گیٹ’ اسکینڈل کے بعد برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے اختیارات پر سوال اٹھائے تھے جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔

رپورٹ کے مطابق 211 اراکین پارلیمنٹ نے بورس جانسن کی حمایت کی جبکہ 148 ارکان نے مخالفت کی۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق بورس جانسن نے اور ان کے عملے نے برطانوی دارالحکومت میں اس وقت شراب کی پارٹیاں منعقد کیں جب برطانیہ میں کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے سخت لاک ڈاؤن نافذ تھا، جس کے بعد سے برطانوی وزیر اعظم پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔

پیر کے روز انہیں جیسی نارمن کی بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جو سابق جونیئر وزیر اور کبھی بورس جانسن کے اتحادی رہ چکے ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم کے اقتدار میں رہنے نے ووٹروں اور پارٹی دونوں کی توہین کی۔

جیسی نارمن نے کہا تھا کہ ‘آپ نے کووڈ کے سلسلے میں 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر بڑے آرام سے قانون توڑنے کے کلچر کی سربراہی کی ہے، حکومت کے پاس ‘بڑی اکثریت ہے لیکن کوئی طویل مدتی منصوبہ نہیں’۔

جیسی نارمن، کنزرویٹو قانون سازوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں سے ایک ہیں جو علی الاعلان کہتے ہیں کہ بورس جانسن برطانیہ پر حکومت کرنے کا اختیار کھو چکے ہیں، جو دارالحکومت لندن میں کساد بازاری، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ہڑتال سے متاثرہ سفری افراتفری کے خطرے کا سامنا کر رہا ہے۔

سال 2019 میں وزارت عظمیٰ کے لیے بورس جانسن کے خلاف انتخاب لڑنے والے سابق وزیر صحت جرمی ہنٹ نے کہا تھا کہ پارٹی جانتی ہے کہ وہ ملک کو تباہ کر رہی ہے، آج کا فیصلہ ہوگا کہ بدلو یا ہارو اور میں تبدیلی کو ووٹ دوں گا۔

دوسری جانب بورس جانسن کے انسداد بدعنوانی کے چیمیئن جان پینروز نے بھی استعفیٰ دے دیا، برطانوی وزیراعظم کے مستقبل کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ یہ ختم ہو گیا ہے’۔

پارٹی کی 1922 کی کمیٹی کے چیئرمین گراہم بریڈی، جو کنزرویٹو قانون سازوں کی رینک اور فائل کی نمائندگی کرتے ہیں، نے کہا تھا کہ پیر کو شام 6 بجے سے 8 بجے کے درمیان ووٹنگ ہوگی، جس کے فوراً بعد ووٹوں کی گنتی کی جائے گی۔

بورس جانسن کے ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دفتر کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’ووٹ، حکومت کو لوگوں کی ترجیحات کو پورا کرتے ہوئے ایک لکیر کھینچنے اور آگے بڑھنے کا موقع دے گا’۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم، ایم پیز (اراکین پارلیمنٹ) کے سامنے اپنا کیس پیش کرنے کے موقع کا خیر مقدم کرتے ہیں اور انہیں یاد دلائیں گے کہ جب وہ متحد ہوں گے اور ان مسائل پر توجہ مرکوز کریں گے جو ووٹروں کے لیے اہم ہیں، اس سے زیادہ مضبوط سیاسی قوت کوئی نہیں ہوگی۔’

خیال رہے کہ بورس جانسن، لندن کے سابق میئر رہ چکے ہیں، وہ 2016 کے ریفرنڈم میں بریگزٹ مہم کے چہرے کے طور پر ویسٹ منسٹر میں برسراقتدار آئے اور اقتدار میں آنے کے بعد ایک بار پھر سخت مؤقف اختیار کیا، جس سے برطانیہ کو سنگل مارکیٹ اور کسٹم یونین سے باہر کر دیا گیا۔

کنزرویٹو قانون سازوں کی اکثریت، یا 180 اراکین، کو بورس جانسن کو ہٹانے کے لیے ان کے خلاف ووٹ دینے کی ضرورت تھی جس پر کچھ کنزرویٹو ارکان کا کہنا تھا کہ اس تعداد تک پہنچنا مشکل ہوسکتا ہے اور اگر تحریک عدم اعتماد منظور ہوگئی تو ان کے متبادل کا فیصلہ کرنے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

قانون سازوں نے کہا کہ انہیں وزیر اعظم کے خطوط موصول ہوئے ہیں، جس میں انہوں نے ووٹ میں ان کی حمایت کرنے کے لیے کہا ہے۔

وزیراعظم کی کابینہ کی ٹیم میں شامل متعدد وزرا ان کی حمایت کے پیغامات دینے کے سلسلے میں تیزی سے کام کر رہے ہیں۔

وزیر خزانہ رشی سونک نے کہا تھا کہ ‘میں آج ان کی پشت پناہی کر رہا ہوں اور اسے جاری رکھوں گا کیونکہ ہم معیشت کو بڑھانے، زندگی گزارنے کی لاگت سے نمٹنے اور کوویڈ بیک لاگز کو صاف کرنے پر توجہ مرکوز کررہے ہیں’۔

بک میکر لاڈبروکس نے سابق وزیر صحت ہنٹ کو بورس جانسن کی جگہ لینے کے لیے اپنا پسندیدہ امیدوار قرار دیا۔

یاد رہے کہ ‘پارٹی گیٹ’ کے نام سے معروف اسکینڈل کے بارے میں ایک رپورٹ جاری ہوئی تھی جس میں 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے پارٹیوں میں لڑائی جھگڑے اور شراب پی کر کی گئی الٹیوں کا ذکر تھا۔

گزشتہ ہفتے جب پارلیمنٹ نے وقفہ لیا اور بیہت قانون سازوں کو ان کے انتخابی حلقوں یا ووٹنگ والے علاقوں میں واپس بھیج دیا گیا تو وہاں متعدد اراکین کو بورس جانسن کے حوالے سے شکایات سننے کو ملیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں