ٹیریان کیس: میرٹ پر جائیں تو یہ 2 منٹ کا کیس ہے، عدالت کے ریمارکس

مبینہ بیٹی ٹیریان کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کی نااہلی کی درخواست کی سماعت میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق نے ریمارکس دیےکہ اگر میرٹ پر جائیں تو یہ 2 منٹ کا کیس ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار شہری کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ اور ابو ذر سلمان نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔

 عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اس درخواست کے قابل سماعت ہونےکا سوال ہے، اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نےکہا کہ ہم ابھی نہیں کہہ رہےکہ آپ میرٹ پر دلائل دیں، اگر میرٹ پر جائیں تو یہ دو منٹ کا کیس ہے ویسے۔

وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ جب عدالت نے نوٹس جاری کردیا تو عمران خان کو میرٹ پر جواب جمع کرانا چاہیے تھا، عمران خان نے کیس کے میرٹ پر جواب جمع نہیں کرایا، عمران خان نے کیس قابل سماعت ہونے سمیت 5 اعتراضات اٹھائے، عمران خان نے اعتراض اٹھایا کہ وہ اب ممبرقومی اسمبلی نہیں ہیں، کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل کیا جاچکا، عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے، عدالت نے اُس حلقے پر دوبارہ الیکشن کرانے سے روک رکھا ہے۔

چیف جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ عمران خان اب اُس نشست سے تو ایم این اے نہیں ہیں، الیکشن کے بعد اگر حلف نہ لیا جائے تو پھر اسٹیٹس کیا ہوگا؟ کیا پارٹی سربراہ پبلک  آفس ہولڈر ہوتا ہے؟ اس پر مطمئن کریں، یہ دونوں سوالات اہم ہیں،ان پردلائل دیں، ایک تو الیکشن ٹریبونل میں کرپشن اورکرپٹ پریکٹسز کی درخواست دی جاسکتی ہے، الیکشن ٹریبونل میں تو کوئی درخواست دائرنہیں کی گئی، اب کیا عمران خان حلف لیے بغیربھی پبلک آفس ہولڈر ہیں؟

چیف جسٹس عامرفاروق نےکہا کہ  پہلے اس کیس کے قابل سماعت ہونےکو دیکھیں گے،کیس قابل سماعت ہوا تو ہی آگے چلیں گے۔

وکیل صفائی نےکہا کہ قابل سماعت کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ کس عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر ہیں؟ عمران خان جب الیکشن لڑے کوئی ٹریبونل جاسکتا تھا، اس کیس میں تو کوئی ٹریبونل میں نہیں گیا، عمران خان ابھی بھی الیکشن لڑ کر جیتے، کیا کوئی کرپٹ پریکٹس میں عمران خان کے خلاف ٹریبونل گیا؟

درخواست گزار کے وکیل  نے پارٹی سربراہ سے متعلق پرانے فیصلےکاحوالہ دیا، چیف جسٹس نےکہا کہ یہ کیس اصل میں تھا کیا؟

وکیل صفائی سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں بتا دیتا ہوں میں اُس کیس میں بھی وکیل تھا، میں اُس کیس میں نواز شریف کا وکیل تھا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ مختلف وقت میں مختلف کردار؟

سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ ہم تو  وکیل ہیں،آفیسرآف کورٹ ہیں،کسی پارٹی سے تعلق نہیں، اس کیس میں پہلے سے 62 ون ایف کا فیصلہ موجود تھا۔

عدالت کے استفسار پر وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نےکاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی دینےکا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر غلط بیان حلفی دیا گیا ہے تو  آپ توہین عدالت کی درخواست دائر کر دیں، اگر آئندہ الیکشن میں عمران خان وہی بیان حلفی دیتے ہیں تویہ فریش کیس نہیں ہوگا۔

وکیل درخواست گزارکا کہنا تھا کہ عمران خان سے متعلق تو امریکی عدالت کا فیصلہ موجود ہے، عمران خان نے امریکی عدالت میں بیان حلفی جمع کرایا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ بیان حلفی نہیں ڈیکلریشن ہے،جس پر اوتھ کمشنرنے پاکستان میں دستخط کیے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان نے بطور  والد بیٹی کی سرپرستی حوالے کرنےکا ڈیکلریشن دیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ  اُس ڈیکلریشن میں والد کا لفظ تو کہیں موجود ہی نہیں ہے،  ایسا ہوسکتا ہے نا کہ کسی شخص کو بہت بعد میں پتہ چلےکہ اس کا ایک بچہ بھی ہے؟ ہوسکتا ہے نا کہ وہ کافی عرصہ کسی اوراحساس میں رہا ہو؟ کیا اس بنیاد پر کوئی شخص نااہل ہو سکتا ہے؟ 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں