وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ عمران خان 7 سال سے ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن سے ممنوعہ فنڈنگ کیسز میں کسی قسم کی گرفت سے آزاد پھرتا ہے، قوم جاننا چاہتی ہے کہ وہ کونسی سلیمانی ٹوپی ہے جو عمران نیازی کو قانون سے بالاتر رکھتی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی چٹکی بجاتے ہی نااہل ہو جاتے ہیں۔
لاہورمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ عمران خان جب بھی سیاست میں مات کھاتے ہیں تو وہ قومی اداروں اور سپریم کورٹ کو تنازعات میں ملوث کرکے بیل آؤٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی پوری تاریخ قوم کے سامنے ہے، جس کا آغاز پاناما کیس سے ہوا، جس کا تسلسل پنجاب کی وزارت اعلیٰ تک برقرار ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان مسلسل قومی اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی کردار کشی کرتے ہیں پھر انہیں دباؤ میں لاکر اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پنجاب میں گزشتہ چند ماہ سے عمران نیازی نے مسلسل انتظامی بحران پیدا کر رکھا ہے، پنجاب کا صوبہ کابینہ کے بغیر چل رہا ہے، اس بحران سے پورا ملک متاثر ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ عمران نیازی جو سپریم کورٹ کی برملا کردار کشی کرتا رہا، اس نے سات ماہ تک بلدیاتی انتخابات کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھا، کبھی کسی نے عمران خان کو بلا کر نہیں پوچھا کہ وہ توہین عدالت کا مرتکب کیوں ہو رہا ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ہم توہین عدالت کی کارروائیوں کا سامنا کرتے ہیں اور نااہل بھی ہو جاتے ہیں لیکن میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ عمران خان نے کونسی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے کہ وہ عدالتوں کو برا بھلا بھی بولے، اس کے بعد وہ عدالتوں کو اپنے سیاسی تنازعات میں ملوث کرنے کی کوشش کرے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ 7 سال سے ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن سے ممنوعہ فنڈنگ کیسز میں کسی قسم کی گرفت سے آزاد بھی پھرے، قوم جانا چاہتی ہے کہ وہ کونسی سلیمانی ٹوپی ہے جو عمران نیازی کو قانون سے بالاتر رکھتی ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی چٹکی بجاتے ہی نااہل ہو جاتے ہیں جبکہ قاسم سوری ڈھائی، ڈھائی سال اسٹے آرڈر پر بیٹھے رہتے ہیں، وہ قومی اسمبلی میں تمام تر قانونی جمہوری تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے ہر قسم کی بدترین بلڈوزنگ کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا کوئی ادارہ عمران خان کو نہیں پوچھ سکتا کیونکہ اس نے سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، وقت آ گیا ہے کہ سلیمانی ٹوپی کو دور کیا جائے، عمران خان کے ساتھ بھی وہی قانون لگایا جائے جو مسلم لیگ (ن) بھگتتی آرہی ہے، یہ امتیازی رویہ ملک میں قانون کی بالادستی کے تقدس کے لیے عوام کی نظروں میں قومی اداروں کے حوالے سے شکوک و شہبات پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کونسی طاقت ہے جو قاسم سوری کو ڈھائی سال سے زیادہ ایک اسٹے آرڈر پر پاکستان کے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے منصب پر فائز رکھتی ہے، کون سی طاقت ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر خود سپریم کورٹ کے قانون کے مطابق بدترین آئین شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن پاکستان کے منتخب ایوان کے پیشِ نظر انہیں عدالت میں طلب نہیں کیا جاتا۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں ادب کے ساتھ یہ پوچھنے کا ضرور حق ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی پاکستان کے منتخب ایوان کے ڈپٹی اسپیکر ہیں لہٰذا قاسم سوری کی طرح پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی ادارے کے احترام کے حوالے سے اس درجے کے حق دار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج جو تماشا چل رہا ہے اور جو سیاسی بے یقینی پھیلائی جا رہی ہے، عمران نیازی پاکستان میں مسلسل انتشار اور انارکی کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران نیازی نے 2014 سے سازشی دھرنے شروع کیے، اس کے بعد چار سال حکومت میں رہا اور سیاسی تقسیم اور انتشار کی سیاست کرتا رہا، جب سے اقتدار سے نکلا ہے، یہ ملک کو سیاسی اتنشار میں دھکیل رہا ہے، صبح شام کہتا ہے کہ پاکستان سری لنکا بنے گا جبکہ ہم پاکستان کو سری لنکا بننے سے بچا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ کسی ایجنڈے پر آتی ہے، وہی حربہ اختیار کیا جا رہا ہے جو امریکا کے 2016 کے انتخابات میں مبینہ طور پر امریکا کے اداروں نے کہا کہ وہاں کروڑوں ڈالر لگا کر سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابی عمل کو ہائی جیک کیا گیا، آج عمران نیازی بھی کروڑوں ڈالر کی ممنوعہ فنڈنگ کے ذریعے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کے انتخابی عمل کو ہائی جیک کرنے اور پاکستان کے عوام کو بہکانے اور انتشار پھیلانے کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کے اداروں کو نظر نہیں آتا کہ خیبر پختونخوا کے اندر 1400سوشل میڈیا ایکٹوسٹ 25 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کیے جاتے ہیں، اور وہ سوشل میڈیا بریگیڈ پاکستان کی فوج اور عدلیہ کی کردار کشی کی منظم مہم چلاتی ہے، یہ چیزیں آج جواب مانگی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں نے مخدوش اقتصادی حالات کی وجہ سے اس صورت حال میں ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمیں بھی مجبور کیا جائے کہ ہم وہ کردار اپنائیں جس سے ملک مزید محاذ آرائی کی طرف دھکیلا جائے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کسی بھی معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، میری سپریم کورٹ سے دست بستہ درخواست ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے کے تحت وزیر اعلیٰ پنجاب کے کیس کی سماعت فُل بینچ کے تحت کی جائے، تاکہ کل کوئی تنازع کھڑا نہ ہوسکے۔