اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہمارے معاملات آخری مراحل پر ہیں اور معاہدے کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔
اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف نے دیگر وزرا کے ہمراہ پریس کی اور کہا کہ امید ہے اگلے چند روز میں آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی مزید بڑھے گی، پاکستان میں غریب آدمی نے ہمیشہ قربانی دی، زلزلہ ہو یا سیلاب قدرتی آفات میں ہمیشہ غریب آدمی پر بوجھ پڑا، پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالیں، پاکستان کو غربت سے نجات دلانی ہے تو اجتماعی کاوشیں کرنا ہوں گی۔
ان کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف معاہدے کے نتیجے میں عام آدمی پر بوجھ پڑا تو وہ سوال اٹھائےگاکہ حکومت نے کیا کیا؟ اشرافیہ کا بچہ بیمار ہو تو وہ فرانس میں علاج کروا سکتے ہیں، غریب کے گھر بیماری آئے پورے خاندان کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں کہ علاج کیسے ہوگا، بینظیرانکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافہ کر رہے ہیں۔
وزرا، مشیروں اور معاونین کا تنخواہیں نہ لینے کا فیصلہ
وزیراعظم نے اعلان کیا کہ تمام وفاقی وزرا، مشیر اور وزیر مملکت رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے، معاونیں خصوصی نے بھی رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزرا گیس، پانی اور بجلی کا بل ذاتی جیب سے ادا کریں گے، اس کے علاوہ وزرا سے لگژری گاڑیاں واپس لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، تمام لگژری گاڑیا ں واپس لی جارہی ہیں ان کو نیلام کیاجائےگا جہاں ضرورت ہوگی وزرا کو سکیورٹی کی ایک گاڑی دی جائے گی، وزرا کا معاون عملہ غیر ملکی دوروں پر ساتھ نہیں جائے گا اور وزرا غیرملکی دوروں میں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے، افسران اپنے بجٹ میں ضروری تبدیلیاں کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ وزرا کے جون 2024 تک لگژری گاڑیاں خریدنے پر پابندی لگادی گئی ہے، کابینہ کا کوئی رکن یا سرکاری افسر لگژری گاڑی استعمال نہیں کرے گا، ان سینیئرز افسران سے بھی سرکاری گاڑیاں واپس لی جائیں گی جنہیں گاڑیوں کا الاؤنس ملتا ہے۔
شہباز شریف نے بتایا کہ وزرا اور سرکاری افسر بزنس کلاس میں سفر نہیں کریں گے، وزرا اندرون و بیرون ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے، زوم کانفرنسز کو فروغ دیں گے تاکہ سفری اخراجات میں کمی لائی جاسکے۔
ان کا کہنا تھاکہ آئندہ دو سال تک کوئی انتظامی یونٹ نہیں بنایا جائے گا، وفاقی حکومت کےاندر کوئی نیا شعبہ نہیں بنایاجائےگا، سنگل ٹریژری اکاؤنٹ بنایا جائے گا، سرکاری ملازمین کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں کیا جائے گا، شہر کے وسط میں موجود سرکاری رہائش گاہیں فروخت کی جائیں گی، وزرا اور سرکاری افسران کے لیے ٹاؤن ہاؤس بنائیں گے۔
سرکاری دفاتر صبح ساڑھے 7 بجے کھولنے کا فیصلہ
وزیراعظم نے کفایت شعاری مہم کے حوالے سے مزید بتایا کہ بجلی اور گیس کی بچت کے لیے گرمیوں میں دفاتر کو صبح ساڑھے 7 بجے کھولا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس سمیت تمام وزارتوں میں ون ڈش پالیسی ہوگی تاہم غیر ملکی مہمانوں پر ون ڈش پابندی کا اطلاق نہیں ہوگا۔
توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے کا اعلان
شہباز شریف نے توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ حکومتی شخصیات صرف 80 ہزار روپے مالیت کا تحفہ اپنے پاس رکھ سکیں گی۔ ان کا کہنا تھاکہ توشہ خانہ کے تحائف کی مالیت کا اندازہ تھرڈ پارٹی کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ میں صرف سیاستدانوں کو ملنے والے تحائف ہوتے ہیں، عدلیہ کے ججز اور عسکری قیادت کے ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں نہیں آتے، اس لیے صرف ہم سیاست دانوں کو ملنے والے توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات سامنے رکھنے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ سرکاری اراضی کی فروخت کے لیے وزیرقانون کی سربراہی میں کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کفایت شعاری مہم سے سالانہ 200 ارب روپے کی بچت ہوگی، 200 ارب روپے کی یہ بچت صرف وفاقی اداروں میں ہوگی، صوبوں کا حصہ علیحدہ ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ہم سب عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کا احترام کرتے ہیں، اگر کہیں صریحاً جانبداری ہورہی ہیں اس سے کب تک آنکھیں بند رکھیں گے؟ نوازشریف کو پاناما سے اقامہ میں سزا دلوا دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ عمران نیازی کے300 کنال کے گھر کی بعد میں اجازت لی گئی، عمران نیازی کا گھر چیف جسٹس نے پتہ نہیں کیسے ریگولرائز کردیا، غریبوں کے گھر ڈھائے گئے، یہ ناانصافی کی انتہائی مثال ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ ایسے ججز جن کا رویہ ن لیگ کے ساتھ جانبدارانہ رہا ہے، مطالبہ کیاہے ن لیگ سےمتعصبانہ رویہ رکھنےوالےججزکےسامنے کیسز نہ رکھے جائیں، میں یہ بات بطور وزیراعظم نہیں ، بطور پارٹی ہیڈ کہہ رہا ہوں۔