پشاور: مقامی احتساب عدالت نے مالم جبہ، سوات میں 2014 میں سرکاری اراضی کی لیز پر دیے جانے میں مبینہ بے ضابطگیوں کے معاملے میں خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور متعدد افسران کے خلاف تحقیقات کو باضابطہ طور پر بند کرنے کی اجازت دے دی۔
رپورٹ کے مطابق جج شاہد خان نے اس کے لیے چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) جسٹس (ر) جاوید اقبال کی درخواست کو منظور کر لیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس معاملے میں پرویز خٹک (اب وزیر دفاع) اور دیگر حکام کی بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
درخواست قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کے سیکشن 9 کے تحت دائر کی گئی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ بیورو کسی فرد کے خلاف کسی جرم کی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد تفتیش کو باضابطہ طور پر بند کرنے کی منظوری کے لیے احتساب عدالت سے رجوع کرے گا۔
خیال رہے کہ رواں سال ستمبر میں یہ درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک، سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری (منصوبہ بندی و ترقی) خالد پرویز، ٹورزم کارپوریشن خیبر پختونخوا کے اس وقت کے منیجنگ ڈائریکٹر مشتاق خان اور دیگر کے خلاف 275 ایکڑ کے جنگلات کی اراضی کو سیمسن گروپ آف کمپنیز کو مبینہ غیر قانونی لیز پر دینے کے حوالے سے تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔
چیئرمین نیب نے اصرار کیا کہ وہ مطمئن ہیں کہ قومی احتساب آرڈیننس کی دفعات کے تحت ملزمان کے خلاف کوئی بھی فوجداری مقدمہ نہیں بنایا گیا، لہٰذا ان کے خلاف تحقیقات بند کرنے کی منظوری کے لیے معاملہ احتساب عدالت کو بھجوا دیا گیا۔
عدالت نے درخواست پر 3 صفحات پر مشتمل اپنے حکم نامے میں کہا کہ ’نیب حکام سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سمیت دیگر ملزمان کے خلاف تحقیقات بند کر سکتے ہیں‘۔
تاہم اس میں کہا گیا ہے کہ کیس کی بندش سے ملزمان یا بدعنوان اہلکاروں یا افسران کے خلاف محکمانہ یا کسی دیگر کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ان کے خلاف بدعنوانی یا اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے انکوائری یا تحقیقات کے آغاز کو نہیں روکنا چاہیے۔
تحقیقات میں لگائے گئے الزامات میں 275 ایکڑ اراضی کی غیر قانونی لیز، وزیر اعلیٰ کی جانب سے لیز کی مدت میں 15 سے 33 سال کی توسیع اور ٹھیکہ دینے یا بولی لگانے کے عمل میں بے ضابطگیاں شامل ہیں۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ جنگلات کی زمین کی مبینہ غیر قانونی لیز سے متعلق معاملہ پشاور ہائی کورٹ نے یکم اکتوبر 2020 کو اپنے حکم میں خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری (اے سی ایس) کو فوری طور پر 25 جنوری 2018 کو صوبائی حکومت کی جانب سے تنازع کے حل کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے نمٹا دیا تھا۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کمیٹی نے اپنے نتائج ایک رپورٹ میں پیش کیے جسے صوبائی کابینہ نے 28 دسمبر 2020 کو منظور کیا تھا جس کے مطابق مذکورہ اراضی کا اصل مالک محکمہ سیاحت تھا نہ کہ محکمہ جنگلات اور زیر بحث زمین وفاق کی ملکیت تھی اور ریاستِ سوات کے پاکستان میں انضمام سے پہلے دی گئی تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ریونیو ریکارڈ میں بھی اندراج غلط پایا گیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ معاملہ حل ہو چکا ہے اور متعلقہ اراضی کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا ہے۔
کہا گیا کہ نہ تو بیورو نے اپنی درخواست میں اور نہ ہی عدالت نے اپنے حکم میں پرویز خٹک، خالد پرویز اور مشتاق خان کے علاوہ ان تمام لوگوں کے نام بتائے ہیں جن کے خلاف تحقیقات کی گئی تھیں۔
تحقیقات میں بیورو نے کئی اہم لوگوں کو کال اپ نوٹس بھی جاری کیے جن میں موجودہ وزیر اعلیٰ محمود خان، جو اس وقت وزیر سیاحت تھے، صوبائی وزیر عاطف خان، سابق چیف سیکریٹری امجد علی خان اور اس وقت کے سیکریٹری سیاحت محمد اعظم خان شامل ہیں۔
درخواست میں نیب نے کہا کہ ٹھیکہ دینے اور بولی لگانے کے عمل کے حوالے سے تحقیقات کے دوران بعض خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا تھا لیکن منصوبہ مکمل ہو چکا تھا اور اس سے سرکاری خزانے کو مزید کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ پراجیکٹ اعلیٰ ترین بولی لگانے والے کو دیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بولی کے عمل میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں سے متعلق معاملہ چیف سیکریٹری کو بھجوایا جارہا ہے تاکہ مجرم افسران کے خلاف مناسب کارروائی کی جا سکے‘۔