مودی کی کسانوں سے معافی اور زرعی قوانین کی منسوخی کا وعدہ

وزیر اعظم نریندر مودی نے زرعی قوانین کو واپس لینے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت کم کسان ہی اس کے خلاف تھے۔ دوسری طرف کسان تنظیموں نے متنازع قوانین کو پارلیمان سے باضابطہ واپس لینے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 19 نومبر جمعے کے روز جب صبح نو بجے قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اچانک نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کریں گے۔ تاہم انہوں نے کسانوں سے متعلق اپنی حکومت کے تمام قوانین کو نہ صرف واپس لینے کا وعدہ کیا بلکہ اس کے لیے قوم سے معافی بھی مانگی ہے۔

مودی نے کیا کہا؟

انیس نومبر سکھ مذہب کے بانی گرو نانک جی کا جنم دن ہے، جسے ‘پرکاش اتسو’ کے طور پر منایا جاتا ہے، اور اس روز سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تینوں متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کے آئندہ اجلاس میں ان متنازعہ قوانین کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ پارلیمان کا آئندہ اجلاس 29نومبر سے شروع ہورہا ہے۔

مودی کا کہنا تھا، ”آج میں آپ کو اور پورے ملک کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی ماہ کے اواخر میں پارلیمنٹ اجلاس کے دوران ہم ان تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے آئینی عمل کو مکمل کر لیں گے۔” 

انہوں نے ان قوانین کے حوالے سے معذرت کرتے ہوئے کہا وہ مخالفین کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔ ”میں بھارت سے معافی مانگتا ہوں اور سچّے دل اور نیک نیتی کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری کوششوں میں کمی رہی ہو اور ہم کسانوں کو (ان قوانین کے بارے میں) قائل کرنے میں ناکام رہے ہوں۔”

انہوں نے کہا، ”تاہم آج پرکاش اتسو کے تہوار کاموقع ایک دوسرے پر الزام تراشی کے لیے کا نہیں ہے، آج میں پورے ملک کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔”

نریندر مودی نے اپنے خطاب میں ایک طرف تو یہ دعوی کیا کہ ان کی حکومت کے ذریعہ منظور کردہ زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے بہت کم کسان تھے تاہم دوسری طرف انہوں نے اس پر معذرت پیش کرتے ہوئے انہیں واپس لینے کا بھی اعلان کیا۔

ان کا کہنا تھا، ”میں نے جو کچھ کیا وہ کسانوں کے لیے تھا اور اب جو میں جو کر رہا ہوں ملک کے لیے کر رہا ہوں۔”  انہوں نے اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جو کسان اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہی ہیں، اب انہیں اپنے گھروں کو واپس چلے جانا چاہیے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ چند ماہ کے بعد ہی یو پی، پنجاب، گوا اور اترا کھنڈ جیسی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور حکومت کو معلوم ہے کہ کسانوں کی ناراضی اس کے لیے مہنگی پڑے گی اسی لیے مودی نے انتخابات کے مد نظر یہ فیصلہ کیا ہے۔

کسان تنظیموں کا رد عمل

بیشتر کسان تنظیموں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ان کی کوششیں رنگ لائیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب تک پارلیمان میں اسے باقاعدہ منسوخ نہیں کر دیا جاتا اس وقت ان کی تحریک جاری رہے گی اور دھرنے و مظاہروں کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔

 کسان رہنما مہندر سنگھ ٹیکت نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”فوری طور پر احتجاج واپس نہیں لیا جائے گا، ہم اس دن کا انتظار کریں گے جب پارلیمنٹ میں زرعی قوانین کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ فصلوں کی کم سے کم قیمت طے کرنے ساتھ ہی حکومت کو دیگر مسائل پر بھی کسانوں سے بات کرنی چاہیے۔” 

بھارت کی کسان تنظیمیں گزشتہ ایک برس سے بھی زیادہ وقت کے ساتھ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف مہم چلا رہی تھیں اور ملک کے کئی علاقوں میں اس کے خلاف احتجاجی دھرنے جاری ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان مظاہروں کے دوران تقریبا ًساڑھے سات سو کسان ہلاک ہو ئے ہیں۔

اپوزیشن کا رد عمل

کانگریس پارٹی سمیت حزب اختلاف کی تقریبا ًسبھی جماعتوں نے بھی حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ کانگریس رہنما راہول گاندھی نے مرکزی حکومت کے رویے پر طنز کرتے ہوئے کہا، ”ملک کے کسانوں کے ستیہ گرہ (سچائی کی راہ پر چلنے کی مہم) نے مرکزی حکومت کے تکبر کو توڑ کر کھ دیا۔”

انہوں نے اس حوالے سے اپنا ایک پرانا ویڈیو کلپ بھی سوشل میڈیا سائٹ پر شیئر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا، ”میرے الفاظ یاد رکھیئے: حکومت کو ان قوانین کو ایک دن واپس لینے پر مجبور کر دیا جائے گا۔”

مودی حکومت نے گزشتہ برس نومبر میں پارلیمان کے مونسون اجلاس کے دوران متنازعہ زرعی قوانین کو منظور کیا تھا۔ اس کے فوری بعد ان قوانین کے خلاف کسان تنظیموں نے متعدد علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع کردیے جو ایک تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ گزشتہ برس نومبر سے دارالحکومت دہلی کے مضافات میں ہزاروں کسانوں کا دھرنا جاری ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت اور کسانوں کے درمیان کئی دور کی بات چیت بھی ہوئی تاہم اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔ حکومت نے ان قوانین میں ترامیم کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن کسان تنظیمیں ان قوانین کو مکمل طور پر واپس لینے کا مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹی تھیں۔

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی کے بعض رہنماوں نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان اور خالصتان نواز تنظیمیں کسان تحریک کی درپردہ حمایت کررہی ہیں۔کسانوں نے تاہم ہمیشہ اس کی تردید کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں