مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے ٹیکس کی شرح میں اضافے پر اصرار کیا تھا لیکن ہم نے واضح کردیا انکم ٹیکسز نہیں بڑھائیں گے لیکن کاروباری طبقے کو حاصل کچھ استثنیٰ واپس لے لیا جائے گا۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے منی بجٹ سے متعلق سوال پر کہا کہ رواں سال مارچ میں ہم نے 700 ارب روپے کی استثنیٰ اور نئے ٹیکس کے نفاذ پر دستخط کردیے تھے جس کے بعد 50 کروڑ ڈالر ملے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب میں نے ذمہ داری سنبھالی تو اصرار کیا گیا تھا کہ مزید ٹیکس نہیں لگانے دیں گے اور اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے جس کے نتیجے میں ٹیکس میں اضافہ نہیں ہوا‘۔
شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے مؤقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کے مؤقف میں وزن ہے کہ پاکستان میں ٹیکس نظام میں یکسانیت نہیں ہے، کسی پر 17 فیصد اور کسی کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے، اس لیے سیلز ٹیکس لے لیں اور بدلے میں انہیں ٹارگیٹڈ سبسڈی دے دیں۔
انہوں نے کہا کہ فرٹیلائزرز کو گیس کی مد میں 150 ارب روپے کی سبسڈی دیتے ہیں پھر ٹیکس بھی صفر کر دیتے ہیں، دونوں کو جمع کرلیا جائے تو تقریباً 250 ارب روپے بنتے ہیں لیکن یہ فائدہ کسانوں تک نہیں پہنچتا جبکہ یوریا کی بوری مہنگائی فروخت ہورہی ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ ہمارے پاس احساس کا ڈیٹا موجود ہے جس میں امیر و غریب سمیت تمام طبقات کی درجہ بندی ہے اور اصل فائدہ انہیں پہنچانے کے لیے کوئی میکانزم بنائیں گے۔
مشیر خزانہ نے چھوٹے اور متوسط کاروبار (ایس ایم ایز) کے حوالے سے کہا کہ 50 لاکھ تک ایس ایم ایز ہیں اور محض ایک لاکھ 70 ہزار یس ایم ایز کو بینک سے قرضہ ملتا ہے، یہ ستم ظریفی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس ایم ایز کو قرض کی ادائیگی کے لیے اسٹیٹ بینک بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور میری کوشش ہے کہ کامیاب نوجوان اور کامیاب پاکستان کے ذریعے ایس ایم ایز کو آسان شرح سود پر ادائیگی کی جائے۔
شوکت ترین نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان میں بھی تاجر برادری کو اتنی ہی مراعات ملنی چاہیے جتنی پڑوسی ممالک میں فراہم کی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسابقتی ماحول میں مراعات کی جلد بازی میں فراہمی کے قائل نہیں ہیں اس لیے مربوط حکمت عملی تیار کریں گے۔
روپے کے مقابلے ڈالر کی قدر میں اضافے سے متعلق سوال کے جواب میں مشیر خزانہ نے وضاحت کی کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ کو آئی ایم ایف سے عدم معاہدے اور ڈسکاؤنٹ ریٹ میں کمی سے جوڑا گیا لیکن اب تو معاہدہ اور ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینچ مارک ریئل افیکٹو ایکسچینج ریٹ (حقیقی مؤثر شرح تبادلہ) مقامی کرنسی اور مسابقتی ممالک کی کرنسی کے درمیان توازن قائم کرتا ہے اور شرح تبادلہ اس کے قریب قریب ہونا چاہے۔
مشیر خزانہ نے ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حقیقی مؤثر شرح تبادلہ کا ریٹ 165 کے قریب ہونا چاہیے، اس وقت رویپہ انڈر ویلیو ہے، اس کی وجہ افواہیں بھی ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روپیہ ڈی مونیٹائز کیے جانے کی افواہیں گرم ہیں، ایسا کچھ نہیں ہونے والا ہے، حکومت کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائے گی جو مارکیٹ میں عدم اعتماد کی فضا قائم کرے۔