پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے صوبائی قانون سازوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے ملاقات کی تاکہ منحرف قانون سازوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں مشترکہ حکمت عملی بنائی جاسکے۔
اسی دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے صوبائی چیف ایگزیکٹو کو ہٹانے کے لیے عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے۔کے مطابق پی ٹی آئی نے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا تاہم اگلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد ہی۔
ساتھ ہی پارٹی نے حمزہ کو ہٹانے کے لیے اپنی مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کے لیے مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔
دوسری جانب حسن مرتضیٰ کی قیادت میں پی پی پی کے قانون سازوں نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے گورنر پنجاب اور اسپیکر کے عہدوں کے لیے بظاہر محروم رکھنے کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میں کم از کم چار وزارتوں اور کچھ مشاورتی عہدوں پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔
اس ضمن میں پی پی پی کے قانون سازوں نے حمزہ شہباز کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اور کہا کہ وزیراعلیٰ کے لیے رن آف پول ہونے کی صورت میں پریشان نہ ہوں۔
علاوہ ازیں وزیراعلیٰ حمزہ شہباز اور پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت دونوں نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے اثرات پر بات کرنے کے لیے قانونی ماہرین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
اس پیش رفت کے پیش نظر مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو وہ نئے وزیراعلیٰ کے لیے رن آف الیکشن کے لیے تیار ہے۔
ادھر پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ ‘لوٹوں’ کی حیثیت سے متعلق سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے بعد حمزہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے اور اگر وہ فوری طور پر مستعفی نہیں ہوئے تو پارٹی انہیں گھر بھیجنے کے لیے عدالت سے رجوع کرے گی۔
تاہم وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حمزہ شہباز استعفیٰ نہیں دیں گے اور اس بات پر زور دیا کہ وفاقی اور پنجاب دونوں حکومتیں (اگست 2023 تک) اپنی مدت پوری کریں گی۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے سیکریٹری جنرل اویس لغاری نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے کہا ہے کہ وہ پنجاب میں آئینی بحران کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور گورنر کا تقرر کریں تاکہ صوبائی کابینہ تشکیل دی جا سکے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر مملکت کو بہاولپور سے پارٹی کے وفادار بلیغ الرحمٰن کو گورنر کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کی سمری بھیجی تھی تاہم صدر علوی اسے قبول نہیں کر رہے۔
مسلم لیگ (ق) کا اجلاس
دریں اثنا پی ٹی آئی پنجاب کے رہنماؤں سبطین خان، ڈاکٹر مراد راس، مخدوم ہاشم جواں بخت اور سید علمدار عباس نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الٰہی اور سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حمزہ شہباز کی جعلی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اس وقت وزیراعلیٰ ہاؤس میں حمزہ کی حیثیت کچھ نہیں ‘بلکہ ایک قابض کی ہے’۔
اجلاس میں حمزہ شہباز سے وزیراعلیٰ کا دفتر فوری خالی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
ٹوئٹر پر سلسلہ وار ٹوئٹس کرتے ہوئے مونس الٰہی نے کہا: “ہم (ق لیگ اور پی ٹی آئیکے ایم پی ایز 173 ہیں، انشا اللہ جب کل (دوسری بار وزیراعلیٰ کے انتخاب میں) گنتی کی جائے گی تو ہماری تعداد 173 سے کہیں زیادہ ہو جائے گی۔