سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان متوقع تصادم کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ بار کونسل کی درخواست پر چار پارلیمانی جماعتوں تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کو نوٹسز جاری کردیے ہیں۔
سپریم کورٹ کی کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے دوپہر ڈیڑھ بجے مقدمے کی سماعت شروع کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید اور آئی جی اسلام آباد کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب سپریم کورٹ بار نے عدالت سے رجوع کیا ہے، بار ایسوسی ایشن چاہتی ہے کہ قانون پر عملدرآمد کیا جائے، آپ بھی عدالت سے رجوع کرنا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر پیر تک صدرتی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بار امن عامہ اور آرٹیکل 95 کی عملداری چاہتی ہے، یہ از خود کارروائی نہیں ہے، ہمارے پاس درخواست پہلے آ چکی ہے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آزادی رائے اور احتجاج کے حق پر کیا کہیں گے؟ کل والے واقعے پر کیا کہیں گے؟ یہ واقعہ آزادی رائے اور احتجاج کے خلاف تھا۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیں اور میں کل کے واقعے کا پس منظر بتانا چاہتا ہوں، آئی جی اسلام آباد اور ایڈ شنل سیکرٹری داخلہ بھی موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ تمام سیاسی فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔چیف جسٹس، آرٹیکل 63۔اے پر رائے نہیں دینا چاہتے اور اس پر صدارتی ر یفرنس پر درخواست کی سماعت کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے اس پر کہا کہ صدارتی ریفرنس کے معاملے پر سپریم کورٹ بار کی درخواست کا تعلق نہیں ہے جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دونوں معاملات کا آپس میں تعلق ہے، سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر کی ذمہ داریوں کی بات کی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ احتجاج کرنے والے 100افراد کو پولیس نے سندھ ہاؤس سے منتشر کیا، اس کے بعد 20 لوگ سندھ ہاؤس احتجاج کرنے آگئے، 13 لوگوں کو سندھ ہاؤس پر حملہ کرنے پر گرفتار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تھانہ سیکریٹریٹ میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور آج مجسٹریٹ نے 13 مظاہرین کو رہا کر دیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ ہو ہو رہا ہے ہمیں اس سے مطلب نہیں، ہم یہاں آئین کی عملداری کے لیے بیٹھے ہیں، کیا عوامی املاک پر دھاوا بولنا بھی قابل ضمانت جرم ہے، سیاسی عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملیں، ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے۔
اس دوران سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے بات کرنے کی کوشش لیکن جسٹس منیب اختر نے انہیں یہ کہہ کر بات کرنے سے روک دیا کہ آپ کے وکیل موجود ہیں جو دلائل دے رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہاؤس کو نقصان پہنچایا گیا اور تمام جماعتوں کو ہدایت کی کہ تمام سیاسی جماعتیں قانون کے مطابق برتاؤ کریں اور تمام فریقین خلاف قانون کوئی اقدام نہ کریں۔
انہوں نے آئی جی اسلام آباد سے سندھ ہاؤس پر حملے کی رپورٹ بھی پیر طلب کر لی۔
عدالت نے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر حکمران جماعت تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کو نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی مگر قانونی امور کو دیکھا جائے گا۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت پیر دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے دفتر سے جاری بیان میں واضح کیا گیا کہ چیف جسٹس کی جانب سے کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا گیا۔
یہ وضاحت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب یہ افواہیں زیر گردش تھیں کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز سندھ ہاؤس پر دھاوا بولنے کے واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔
سپریم کورٹ بار کونسل نے یہ پٹیشن ایک ایسے موقع پر دائر کی تھی جب سیاسی تناؤ کے ماحول میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے پر تنقید اور الزامات کی بوچھاڑ کا سلسلہ جاری ہے اور رواں ماہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل دونوں فریقین عوامی طاقت کے مظاہرے کا اعلان کر چکے ہیں۔
درخواست میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے دونوں فریقوں نے پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل دارالحکومت میں ریلیاں منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے سیاسی عدم استحکام اور انارکی کا خدشہ ہے۔
گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے کارکنوں نے اسلام آباد میں سندھ ہاؤس پر دھاوا بول دیا تھا اور عمارت میں مقیم منحرف اراکین قومی اسمبلی کے خلاف گھنٹوں تک احتجاج کیا تھا۔
ٹیلی ویژن فوٹیج میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سندھ ہاؤس کی دیواروں پر چڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا جبکہ بعد میں ان سے کچھ نے عمارت میں داخل ہو کر دروازے توڑنے کی بھی کوشش کی۔
درخواست کا متن
درخواست میں کہا گیا کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور حکومت نے واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبران کی جانب سے (تحریک عدم اعتماد کے حق میں) ووٹ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے گی۔
درخواست گزار کے مطابق پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر تواتر سے بتایا جا رہا ہے کہ مذکورہ اراکین کو قومی اسمبلی کے متوقع اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔
درخواست میں وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور دیگر وزرا سمیت اپوزیشن کے متعدد بیانات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت تمام اسٹیلک ہولڈرز کو تحریک عدم اعتماد کا عمل پر امن انداز سے مکمل ہونے دینے کا حکم دیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ تمام ریاستی اداروں کو سختی سے آئین و قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت دی جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت کسی بھی نقصان دہ اور غیر ضروری طریقے سے کام کرنے سے روکا جائے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ہدایت دیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں، اپنے فرائض سرانجام دیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط (2007) کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کو نمٹا دیں۔
درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ (اس حوالے سے) کوئی دوسرا ریلیف (بھی فراہم کیا جائے) جسے یہ معزز عدالت مناسب سمجھے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے 27 مارچ کو جلسے میں 10 لاکھ کا مجمع اکھٹا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسی روز ڈی چوک پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے باعث صورت حال کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔