وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے جمعہ کو بجٹ پر بحث سمیٹنے کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک اب ڈیفالٹ کے راستے پر نہیں ہے کیونکہ یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔
ایوان زیریں سے اپنے خطاب میں وفاقی وزیر نے پی ٹی آئی حکومت پر ملک کو دیوالیہ کے دہانے پر لانے کا الزام لگایا اور کہا کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں آج قوم کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ ملک اب ڈیفالٹ کی راہ پر نہیں بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
‘کسان دوست بجٹ’
مفتاح نے 10 جون کو مالی سال 23-2022 کا 95کھرب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث شروع ہوئی، تو مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے سابقہ اجلاسوں کے دوران اراکین اسمبلی کی جانب سے دی گئی زیادہ تر سفارشات کو بجٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے بجٹ کو کسان دوست قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ کاٹن کیکس(کھل) پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ پچھلے 10 سے 20 سالوں میں اس سے زیادہ کسان دوست بجٹ پیش کیا گیا ہے جو موجودہ مخلوط حکومت کی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔
وزیر نے کہا کہ اس کسان دوست بجٹ کے نتیجے میں ملک خوردنی تیل، گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہو جائے گا، یہ فوائد طویل مدتی ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کسانوں کے لیے فنڈز کو سبسڈی نہیں بلکہ سرمایہ کاری سمجھا جانا چاہیے، ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم کسانوں پر سرمایہ کاری کریں گے تو وہ ہمیں بہترین منافع دیں گے۔
‘خراب مالی سال’
وفاقی وزیر نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ رواں مالی سال پاکستان کو تاریخ میں ایک برا سال تصور کیا جائے گا کیونکہ ہم بہت سے اہداف سے دور ہو گئے اور بجٹ میں نمایاں خسارہ درج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پرانی جی ڈی پی کا 8.95 فیصد خسارہ بتایا ہے، یہ ملک کے اخراجات اور وسائل کے درمیان وسیع خلا کو ظاہر کرتا ہے، اب ہمیں دوسروں سے فنڈز لینا ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ اپریل میں وزیر خزانہ بننے کے فوراً بعد مجھے متعدد غیرملکی دوروں پر جانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہم آزادی، خود مختاری اور خود انحصاری کی بات کرتے ہیں تو یہ کیسی آزادی ہے کہ ہم تین سے چار سالوں میں 20ہزار ارب روپے کے قرضے لیتے ہیں؟۔
سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے دور حکومت کے مختصر عرصے میں اتنے بڑے قرضے لینے کا الزام لگاتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ایسا کرتے ہوئے ہم آزادی کی طرف نہیں بلکہ غلامی کی طرف جاتے ہیں۔
انہوں نے عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کو یہ لیکچر نہ دیں کہ ہم حقیقی آزادی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے عمران کی پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے فروری میں متعارف کرائی گئی ایندھن اور توانائی کی سبسڈی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ سبسڈیز کی مالیت 120 ارب روپے تھی اور انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اتحادیوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ حکومت اس طرح کے مشکل وقت میں یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتی۔
انہوں نے کہا کہ سبسڈی کو ختم کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا اور دوبارہ اتحادیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان سب کا خیال تھا کہ اس سے سیاسی سرمائے پر اثر پڑے گا لیکن ان سب نے اتفاق کیا کہ پاکستان پہلی ترجیح ہے۔
ملک کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ضروری
مفتاح نے تخمینہ لگایا کہ جاری مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً 17 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا اور ایک کروڑڈالر کے معمولی ذخائر اس خسارے کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا 6 ارب ڈالر کا قرض کا پروگرام دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا جا سکے۔
حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان بات چیت کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 23 مالی نمبروں میں اہم پیش رفت کی ہے۔
ٹیکس
وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے گزشتہ روز اعلان کردہ ٹیکسوں کا حوالہ دیتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے ایوان کو بتایا کہ کوئی بالواسطہ ٹیکس نہیں لگایا گیا اور نہ ہی کھپت پر کوئی ٹیکس لگایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے امیروں پر ٹیکس لگایا ہے، زیادہ تر ریونیو اس کے ذریعے اکٹھا کیا جائے گا تاکہ ہمیں دوسروں سے پیسے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے اور اپنے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے قابل ہو سکیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ میری کمپنیاں بھی پہلے کے مقابلے میں 20کروڑ روپے زیادہ ٹیکس ادا کریں گی اور اس لیے اگر ہم دوسروں سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، تو ہم بھی اس میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا تھا کہ اس سال ریکارڈ کیے گئے 1600 ارب روپے کے بنیادی خسارے کو ناصرف کم کیا جائے گا بلکہ 153 ارب روپے کا سرپلس بھی ہو گا، اس کے حصول کے لیے خود انحصاری کے ساتھ ساتھ ان افراد اور اداروں پر 1 فیصد کا اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا جن کی سالانہ آمدنی 15کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح 20کروڑ روپے سے زائد سالانہ آمدنی والے 2 فیصد اضافی ٹیکس ادا کریں گے، 25 کروڑ سے سے زیادہ آمدنی والوں پر 3فیصد اور 30کروڑ روپے سے زائد سالانہ والے افراد پر 4 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ٹیکس مالی سال 2022 میں ایک دفعہ وصول کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے 13 شعبوں کی نشاندہی کی ہے جنہوں نے اس سال نمایاں منافع کمایا ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جن کمپنیوں کی آمدنی 30کروڑ روپے سے زیادہ ہے، وہ ایک سال کے لیے 10 فیصد سپر ٹیکس ادا کرنے کی پابند ہوں گی۔
وزیر نے کہا کہ سیمنٹ، اسٹیل، چینی، تیل اور گیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹوموبائل اسمبلنگ، سگریٹ، مشروبات، کیمیکل اور ایئر لائن کے شعبوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کو یہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ باقی شعبوں میں موجود اداروں کو یہ ایک بار اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جو ان کی آمدنی کا 4 فیصد ہے۔
دیگر ٹیکسوں کی تفصیلات کی طرف بڑھتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقریباً 9لاکھ پرچون کی دکانیں ہیں اور حکومت ان دکانوں میں سے ڈھائی سے تین لاکھ کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے ایک نئی اسکیم متعارف کرائی گئی ہے جس کے تحت ان دکانوں کو جو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ادا کرنا تھا وہ ان کے بجلی کے بلوں سے منسلک کیا جائے گا، اس اقدام کے تحت چھوٹی دکانوں کو ماہانہ 3ہزار روپے اور بڑے خوردہ فروشوں کو 10ہزار روپے کا فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا، اس کے بعد ان سے مزید پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔
مزید برآں، انہوں نے کہا کہ وہ خوردہ فروش جو سونے کا کاروبار کر رہے ہیں اور جن کی دکانیں 300 مربع فٹ یا اس سے کم ہیں، انہیں 40,000 روپے مقررہ آمدنی اور سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا اور بڑی دکانوں کے لیے سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کر دیا گیا ہے۔
مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ عام لوگوں کی طرف سے سناروں کو فروخت کیے جانے والے سونے پر ود ہولڈنگ ٹیکس 4 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ فکسڈ ٹیکس کی اسی طرح کی اسکیم کا اعلان ریئل اسٹیٹ، بلڈرز اور کار ڈیلرز کے لیے کیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ٹیکس ان کے اخراجات پر نہیں آمدنی پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سے مہنگائی نہیں بڑھے گی بلکہ ہماری آمدنی میں اضافہ ہوگا۔