مغرب کے خلاف چین اور روس کے تعلقات کا ’نیا دور‘، امریکہ کو تحفظات

چین اور روس کے رہنماؤں نے مغرب کے خلاف متحدہ محاذ قائم کرتے ہوئے اپنے تعلقات کے ’نئے دور‘ کا خیرمقدم کیا ہے جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ چین کو روس اور یوکرین کے درمیان بطور غیرجانبدار ثالث نہیں دیکھتا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چین اور روس کے رہنماؤں نے منگل کو ماسکو میں متحدہ محاذ قائم کرتے ہوئے اپنے تعلقات کے ’نئے دور‘ کا خیرمقدم کیا۔
چینی صدر نے منگل کو روس کا دورہ کیا اور روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی جس میں یوکرین کی جنگ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
روسی صدر نے کہا کہ وہ یوکرین کے معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں اور انہوں نے تنازع پر بیجنگ کے 12 نکاتی پوزیشن پیپر کو سراہا جس میں تمام ممالک کی علاقائی خودمختاری کے لیے بات چیت اور احترام کا مطالبہ شامل ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مغرب پر الزام لگایا تھا کہ وہ یوکرین کے تنازع کو ختم کرنے کے لیے بیجنگ کی تجاویز کو مسترد کر رہا ہے۔
صدر پوتن نے چینی رہنما شی جن پنگ کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا تھا کہ ’چین کی طرف سے پیش کردہ امن منصوبے کی بہت سی شقوں کو پُرامن تصفیے کی بنیاد سمجھا جا سکتا ہے جب کیئف اور مغرب اس کے لیے تیار ہوں گے تاہم، اب تک ہم نے ان کی طرف سے ایسی تیاری نہیں دیکھی۔‘
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ کیئف نے چین کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور وہ بیجنگ کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے منگل کو نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ چین کو کسی بھی طرح ایک غیرجانبدار ثالث کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ چین نے یوکرین پر روسی حملے پر تنقید سے گریز کیا ہے اور اُس نے روس سے تیل کی خریداری جاری رکھی ہوئی ہے حالانکہ مغرب نے ماسکو کے توانائی سیکٹر پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
جان کربی نے کہا کہ چین اس ’روسی پراپیگنڈے میں ہم زبان‘ ہے کہ امریکہ اور مغرب کے دیگر ممالک اس جنگ کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ یوکرین کے مضبوط حمایتی ہیں۔ جس کی وجہ سے روس کو خطرہ محسوس ہوا اور وہ مداخلت کرنے میں حق بجانب ہے۔
جان کربی نے کہا کہ ’روس اور چین اس کھیل کے قوانین کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔‘
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ’اس کے باوجود امریکہ چین کے ساتھ رابطے کے ذرائع کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔‘
جان کربی کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ چین نے روس کو فوجی امداد فراہم کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں