امریکی صدر جو بائیڈن نے عالمی رہنماؤں کو مشرق وسطیٰ میں ’مکمل جنگ‘ کے آغاز کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے لبنان اور غزہ دونوں کا سفارتی حل تلاش کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ بڑے پیمانے پر جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور اسرائیل اور حماس سے جنگ بندی معاہدے کو حتمی شکل دینے کا مطالبہ کیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بطور امریکی صدر اپنے چوتھے اور آخری خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ اس موسم گرما میں مجھے یہ فیصلہ لینا پڑا کہ آیا صدر کے طور پر دوسری مدت کے لیے کھڑا ہونا چاہیے یا نہیں، یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کا صدر بننا میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز رہا ہے، میں اور بھی بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں لیکن جتنا مجھے اپنی نوکری سے پیار ہے اس سے کہیں زیادہ میں اپنے ملک سے پیار کرتا ہوں، میں نے 50 سال عوام کی خدمت کے بعد فیصلہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نئی نسل قیادت کر کے قوم کو آگے لے کر جائے۔
بائیڈن نے کہا کہ میرے ساتھی قائدین، ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے، کچھ چیزیں اقتدار میں رہنے سے زیادہ اہم ہوتی ہیں، یہ ہمارے لوگ ہیں جو ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، یہی جمہوریت کی روح ہے اور یہ کسی ایک ملک کے لیے نہیں ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے خطاب کے دوران مشرق وسطیٰ میں ’مکمل جنگ‘ کے آغاز کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ لبنان اور غزہ دونوں کا سفارتی حل تلاش کریں۔
لبنان میں اسرائیلی حملوں میں 550 سے زائد افراد کی شہادت کے بعد جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ بڑے پیمانے پر جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے، گوکہ صورتحال مزید خربا ہو گئی ہے لیکن پھر بھی سفارتی حل ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھاک ہ درحقیقت، دونوں ممالک کے باشندوں کا باحفاظت سرحد پر موجود اپنے گھروں کو واپس لوٹنے اور پائیدار امن و سلامتی کا یہ واحد راستہ ہے اور اور اس کے حصول کے لیے ہم انتھک محنت کر رہے ہیں۔
لبنان میں یہ خونریزی ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے کئی ماہ سے جاری امریکی کوششیں ایک بار پھر ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں اور وہاں اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والوں کی تعداد 41ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ میں وہاں تقریباً ایک سال سے جاری جنگ میں جنگ بندی کے لیے مسلسل زور دے رہا ہوں، میں نے قطر اور مصر کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالی افراد کے معاہدے میں پیش رفت کی ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی اس کی توثیق کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے معصوم شہری بھی کسی جہنم میں زندگی بسر کررہے ہیں، امدادی کارکنوں سمیت ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں، بہت سارے خاندان نقل مکانی کر گئے، خیموں میں ایک ہجوم موجود ہے اور ایک سنگین انسانی صورتحال کا سامنا ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ اور اب وقت آگیا ہے کہ فریقین اپنی شرائط کو حتمی شکل دیں، س معاہدے سے یرغمال افراد کو واپس گھر لایا جائے گا اور اسرائیل اور غزہ کو حماس کی گرفت سے آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ کے مصائب کو کم اور اس جنگ کا خاتمہ کیا جائے۔
انہوں نے روس کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا یوکرین پر حملہ ناکام ہو گیا ہے اور اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ یوکرین یف کی فتح تک اس کی حمایت جاری رکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیوٹن کی جنگ اپنے بنیادی مقصد میں ناکام ہو چکی ہے، وہ یوکرین کو تباہ کرنے کے لیے نکلے لیکن یوکرین اب بھی آزاد ہے
بائیڈن نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم تھک نہیں سکتے، ہم پیچھے نہیں دیکھ سکتے اور جب تک یوکرین ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے ساتھ جیت نہیں جاتا، ہم یوکرین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
امریکی صدر نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ سوڈان میں حریف جرنیلوں کو مسلح کرنا بند کر دیں جن کی خونریز جنگ نے ایک بڑے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ جرنیلوں کو مسلح کرنا بند کرے اور سب ایک آواز ہو کر ان سے کہیں اپنے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا بند کرو، سوڈانی عوام کے لیے امداد روکنا بند کرو، اب اس جنگ کو ختم کرو۔
اس موقع پر انہوں نے افریقی ممالک میں خطرے کا سبب بننے والی وبا ایم پاکس(منکی پاکس) کے سلسلے میں وائرس کا سامنا کرنے والے افریقی ممالک کے لیے 10 لاکھ ایم پاکس ویکسین عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ اب ہمیں افریقہ میں ایم پاکس کی وبا کا سامنا کرنے کے لیے تیزی سے حرکت میں آنے کی ضرورت ہے، ہم افریقی ممالک کو ایم پاکس کی روک تھام اور اس سے نمٹنے کے لیے 50 کروڑ ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں اور دیگر ممالک سے اپیل کی کہ وہ اس کو ایک ارب ڈالر تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
اپنی تقریر کے دوران امریکی صدر نے ماحولیاتی تبدیلی کے لیے تمام ممالک سے مل کر کام کرنے کی اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے فوائد اور اس سلسلے میں درپیش چیلنجوں کا بھی ذکر کیا۔ بائیڈن نے کہا کہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے ہم اپنے شہریوں کو مستقبل کے لیے تیار کریں، جتنی تبدیلی ہم نے گزشتہ 50سال میں دیکھی ہے اس سے کہیں زیادہ تکنیکی تبدیلی اگلے دو سے 10 سالوں کے درمیان دیکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ہمارے طرز زندگی، ہمارے کام کرنے کے طریقے، ہمارے جنگ کے طریقوں کو بدلنے والی ہے، اس میں سے زیادہ تر چیزیں ہماری زندگیوں کو بہتر بنا سکتی ہیں لیکن اس سے ہمیں خطرات بھی درپیش ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے ہمیں ڈیپ فیک سے لے کر غلط معلومات اور نئے پیتھوجینز سے لے کر بائیو ویپن تک بہت سے خطرات کا سامنا ہے لہٰذا ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس نئی ٹیکنالوجی کو سنبھالنے کے لیے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے، کچھ بھی یقینی نہیں ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کیا رخ اختیار کرے گی یا اسے کس طرح سے استعمال کیا جائے گا۔