حکومت سندھ نے مشتاق احمد مہر کو صوبے کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کے عہدے سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ڈاکٹر کامران فضل کو قائم مقام آئی جی سندھ مقرر کردیا ہے۔
نوٹی فکیشن کے مطابق فروری 2020 میں اس عہدے پر تعینات ہونے والے 22 گریڈ کے افسر مشتاق احمد مہر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سندھ کے چیف سیکریٹری محمد سہیل راجپوت کی جانب سے جاری ایک علیحدہ نوٹی فکیشن کے مطابق گریڈ 21 کے افسر ڈاکٹر کامران فضل، جو اس وقت پولیس ٹریننگ کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، کو اگلے احکامات تک انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ کے عہدے کا قائم مقام چارج سونپا گیا ہے۔
ڈاکٹر کامران فضل ماضی میں اے آئی جی سکھر ریجن کے فرایض بھی انجام دے چکے ہیں۔
کراچی پولیس چیف کا تبادلہ شہر میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد کیا گیا ہے اور گزشتہ چند ہفتوں میں کراچی میں تین بم دھماکے ہوچکے ہیں، جن میں تین چینی باشندوں سمیت 6 افراد ہلاک ہوئے۔
26 اپریل کو جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد ہلاک ہوئے تھے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایک وین، عملے کے ارکان کو لے کر کامرس ڈپارٹمنٹ کے ساتھ واقع کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہونے والی تھی، اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔
شہر میں دوسرا حملہ 12 مئی کو صدر کے علاقے میں ہوا، موٹر سائیکل میں نصب ریموٹ کنٹرول بم پھٹنے سے ایک راہگیر ہلاک اور کم از کم 9 افراد زخمی ہوئے تھے۔ بی ایل اے کی طرح کالعدم سندھودیش ریولیوشنری آرمی (ایس آر اے) نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک پیغام میں حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تیسرا دھماکا رواں ہفتے کے شروع میں پیر کو ہوا جب کراچی کے علاقے کھارادر میں اقبال مارکیٹ اور نیو میمن مسجد کے قریب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں ایک خاتون جاں بحق اور 11 افراد زخمی ہوئے۔
پولیس حملوں کی تحقیقات کر رہی ہے جبکہ شہر کی سیکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
’خفیہ اداروں کی ناکامیاں‘
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں وزیر خارجہ اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ دبئی گیا تھا اور وہاں رات قیام کا ارادہ تھا مگر جیسے ہی مجھے کراچی میں بم دھماکے کا پتا چلا تو میں اسی وقت وہاں سے نکل آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ایک مہینے میں دہشت گردی کے 3 واقعات ہوئے ہیں مگر دہشت گردی کے واقعات کچھ عرصے سے پورے ملک میں ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں نسبتاً کم واقعات ہوئے ہیں مگر کسی ایک شخص کا بھی قتل ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔
افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں نے اس وقت کے وزیر داخلہ کو خطوط لکھے تھے کہ ہمیں کچھ معاملات پر خدشات ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ نے کہا کہ دہشت گردوں کی نہ کوئی زبان ہے، نہ مذہب اور نہ کوئی قوم، بلکہ یہ وحشی لوگ ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور ان کی مالی معاونت بھی ہمارے دشمن ممالک کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ان معاملات پر تفصیلی ملاقات کی ہے اور انٹیلی جنس کی ناکامیوں پر بھی بات ہوئے ہے کہ وہ فی الفور دہشت گردی کے حملوں کو روک نہیں سکی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات پر قابو پائیں، ہم کسی بھی صورت اپنے صوبے کو ماضی کی طرح دہشت گردی میں لے جانے کے متحمل نہیں ہیں، ہم دہشت گردی کو روکنے کے لیے ہر قدم اٹھائیں گے جس میں کچھ لوگوں کو تکلیف بھی آئے گی۔