مسلم لیگ (ن) کا جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ

پنجاب کی سیاسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ روز ثابت کر دیا کہ وہ اس اہم ترین تخت کو کھونے کے لیے تیار نہیں، تاہم اس پر ہر صورت ڈٹے رہنے کی بھاری سیاسی قیمت ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار پرویز الٰہی کے خلاف متنازع فتح پہلے سے انتشار پذیر سیاسی ماحول اور عدم استحکام میں اضافے کا سبب بنے گی جس سے پاکستان نکلنے شدت سے کوشش کر رہا ہے۔

اس اقدام سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران اتحاد پنجاب کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دینے کے لیے کتنا بے تاب ہے، جہاں وہ اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ آنے والے دنوں میں اپنی سیاسی حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔

مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ روز صوبائی اسمبلی میں تقریباً وہی حکمت عملی اپنائی جو پی ٹی آئی نے اپریل میں قومی اسمبلی میں اپنائی تھی، سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے مسترد کر دیا تھا، ممکن ہے اسی طرح پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کا معاملہ بھی سپریم کورٹ کو ہی طے کرنا پڑے۔

اتوار کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست کے بعد مسلم لیگ (ن) نے فیصلہ کیا کہ اب سیاست میں اخلاقیات کی کوئی گنجائش نہیں، شریف خاندان نے بظاہر اپنے نسبتاً نئے سیاسی حریف عمران خان کو شکست دینے کے لیے اپنی 80 اور 90 کی دہائی کی سیاسی حکمت عملی اپنائی۔

عمران خان نے ضمنی انتخاب کی مہم میں اپنے ان سیاسی حریفوں کو ‘چور’ اور ‘ڈاکو’ جیسے القابات سے نوازا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی تازہ ترین چال سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو انہیں مزید نئے القابات سے نوازنے کا موقع ضرور مل گیا ہے۔

اگرچہ مسلم لیگ (ن) میں مفاہمتی پالیسی اپنانے کی آوازیں بھی اٹھتی رہی ہیں لیکن اس خیال کی مخالفت کرتے ہوئے پارٹی نے عمران خان کو ‘مناسب جواب’ دینے کی حمایت کی، جن کا ماننا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہی اس ‘فتنے’ سے نمٹنے کا واحد طریقہ ہے۔

سربراہ مسلم لیگ (ن) کی اپنی صاحبزادی مریم نواز نے ضمنی انتخابات میں اپنی پارٹی کی شکست کو خوش اسلوبی سے قبول کیا تھا، تاہم گزشتہ روز انہوں نے حکمت عملی تبدیل کی جب ایک ٹوئٹ میں انہوں نے مخالفین کو مناسب جواب دینے کا اشار دیا۔انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’مسلم لیگ (ن) اپنے ساتھ کیے گئے سلوک کو نہیں بھولی، اب کھیل کے اصول سب کے لیے یکساں ہوں گے، ورنہ مسلم لیگ (ن) اسے کھیلنا اچھی طرح جانتی ہے۔

مبصرین کے مطابق یہ ایک اشارہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت آئندہ سال اگست میں عام انتخابات تک اپنی حکومت کی مدت مکمل کرنے کے لیے ڈٹ گئی ہے۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے یہ کہہ کر ڈپٹی اسپیکر کے گزشتہ روز کے فیصلے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حکومتی اتحاد پنجاب کو کھونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ‘پنجاب کھونے کا مطلب اپوزیشن اتحاد کو ہمارے ہاتھ سے وفاق چھیننے کی اجازت دینا ہے، ہم نے عمران خان کی حکومت کا چھوڑا ہوا بوجھ اٹھایا، سخت معاشی فیصلے کیے اور ضمنی انتخابات میں اس کی قیمت ادا کی’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ گزشتہ حکومت کے ناقص معاشی فیصلوں کی قیمت ہم ادا کریں جب کہ عمران خان کوئی نقصان نہ اٹھائے’۔

حکمران اتحاد یہ بھی چاہتا ہے کہ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اس کی مکمل پشت پناہی کرے اور اس مقصد کے لیے انہیں عمران خان کو قابو کرنے کے لیے ‘گرین سگنل’ کی ضرورت ہے۔

رانا ثنا اللہ، مریم اورنگزیب، سعد رفیق اور جاوید لطیف جیسے وفاقی وزرا نے ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد اس مطالبے پر کھل کر آواز اٹھانا شروع کردی ہے۔

وہ الیکشن کمیشن پر بھی زور دے رہے ہیں کہ وہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ دیں، ان کا خیال ہے کہ عمران خان کو سلاخوں کے پیچھے بھیجنے سے سازگار ماحول میں معیشت کو ٹھیک کرنے میں مدد ملے گی۔

‘ایک زرداری سب پر بھاری’

دوسری جانب سابق صدر اور شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری نے ایک بار پھر خود کو اس انداز میں سیاست کا تجربہ کار کھلاڑی ثابت کیا کہ ان کے بیٹے وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ‘ایک زرداری سب پر بھاری’۔

یہ واقعی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو یقینی بنانے میں ان کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم اس بار وہ ایک ایسی چال میں کامیاب ہو گئے جس نے سربراہ مسلم لیگ (ق) کو اپنے ہی کزن کے خلاف لا کھڑا کیا، یہ ایک ایسی حکمت عملی تھی جس کا تصور ان کے اتحادیوں نے بھی نہیں کیا ہوگا۔

اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شریف خاندان کا بہت زیادہ انحصار آصف زرداری پر ہے تاکہ ناممکن کو ممکن بنایا جا سکے۔

اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ شریف خاندان، آصف زرداری کی اندھی تقلید کرکے اپنی سیاست کو نقصان پہنچا رہا ہے لیکن عمران خان کی جارحانہ سیاست کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔

چوہدری برادران کے درمیان دراڑ

انتہائی اہم موڑ پر چوہدری شجاعت کا پرویز الٰہی کے خلاف ہو جانا گجرات کے چوہدری برادران کے درمیان علیحدگی کے ‘باضابطہ اعلان’ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

خیال کیا جارہا ہے کہ چوہدری شجاعت کے بیٹوں سالک اور شافع نے اپنے والد کو وزیراعلیٰ کے انتخاب میں پرویز الٰہی کے خلاف جانے کے فیصلے پر مجبور کیا۔

چوہدری شجاعت کے بھائی وجاہت حسین نے حال ہی میں الزام عائد کیا کہ چوہدری شجاعت کے بیٹوں نے مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحاد میں شامل ہونے کے لیے زرداری سے ڈالرز لیے۔

البتہ چوہدری شجاعت کا اس بات پر اصرار ہے کہ ان کے بھائی یہ الزامات واپس لیں اور معافی مانگیں تاہم انہوں نے تاحال ایسا نہیں کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں