مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں عمرے کی ادائیگی کے لیے پاسپورٹ واپس لینے سے متعلق درخواست واپس لے لی۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں خصوصی ڈویژن بینچ نے آج اس درخواست کی سماعت کی، سماعت کے دوران مریم کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی رہنما اپنی درخواست واپس لینا چاہتی ہیں۔
سماعت کے دوران امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ 2019 میں نواز شریف کی تیمارداری کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کی درخواست پر ابھی دلائل نہیں دینا چاہتے۔
بعد ازاں عدالت نے مریم نواز کی جانب سے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر مسترد کر دی۔
مریم نواز کی پاسپورٹ واپسی کی درخواست سے دستبرداری ایسے وقت میں ہوئی جب درخواست کی سماعت کے لیے کم از کم 4 بینچز بنائے گئے لیکن بینچز میں شامل تمام ججوں نے یکے بعد دیگرے کیس سے خود کو علیحدہ کر لیا۔
گزشتہ ہفتے جسٹس سید شہباز علی رضوی اور جسٹس انوار الحق پنوں پر مشتمل پہلے بینچ نے سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کیس کو جن معزز جج صاحبان نے پہلے سنا، بہتر ہے وہی اس کیس کو سنیں۔
جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل بینچ نے مریم نواز کی درخواست پر نوٹس جاری کیا تھا لیکن اگلے ہی روز جب درخواست سماعت کے لیے آئی تو جسٹس فاروق حیدر نے خود کو اس معاملے سے علیحدہ کر لیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے درخواست کی سماعت کے لیے جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بینچ تشکیل دیا، تاہم جب بینچ نے درخواست پر سماعت کی تو جسٹس اسجد جاوید گھرال نے بھی اس معاملے سے خود کو الگ کر لیا۔
بعدازاں بینچ نے کیس کی فائل کسی اور مناسب بینچ کے سامنے سماعت کے لیے چیف جسٹس کو واپس بھیج دی جس کے بعد جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل ڈویژن بنیچ نے آج درخواست کی سماعت کی تھی۔
دریں اثنا سابق وزیر اطلاعات اور پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں شریف فیملی کے مقدمات پر عمومی تاثر منفی ہے، چیف جسٹس عدالت کے تاثر کو ضرور مدنظر رکھیں، مسلسل جج صاحبان مریم نواز کا مقدمہ نہیں سن رہے۔اپنی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے مزید کہا کہ حلف کا معاملہ صدر اور وزیر اعظم آفس کے درمیان ہے، 2، 2 گھنٹوں بعد کیس لگانے کی وجہ؟ پھر آرٹیکل 63 اے کے ریفرنس پر تعطل، کیا تاثر جائے گا؟
واضح رہے کہ جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل بینچ نے 4 نومبر 2019 کو چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم کی بعد از گرفتاری ضمانت منظور کی تھی۔
تاہم بینچ نے انہیں اپنا پاسپورٹ حوالے کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو خدشہ تھا کہ وہ ملک سے فرار ہو سکتی ہیں۔
بعد ازاں مریم نواز کی جانب سے اپنا نام ای سی ایل سے نکالنے اور عدالت میں جمع پاسپورٹ واپس حاصل کرنے کے لیے متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
درخواست میں مریم نواز کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے باوجود بیمار والدہ کو چھوڑ کر بیرون ملک سے والد کے ساتھ واپس آئیں لیکن میرا مؤقف سنے بغیر ہی نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا۔
ای سی ایل کے معاملات دیکھنے والی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے 28 دسمبر 2019 کو مریم نواز کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔
گزشتہ سال مارچ میں مریم نواز نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جب تک یہ حکومت گھر نہیں چلی جاتی اور عمران خان اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ جاتے، اس وقت تک اگر حکومت پاسپورٹ اور ٹکٹ ٹرے میں رکھ کر پیش کرے گی تو بھی میں بیرون ملک نہیں جاؤں گی۔