پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہرام ترکئی اور عاطف خان کے کاغذات نامزدگی منظور جب کہ مراد سعید کے کاغذات پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔
کے نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں اعظم سواتی، مراد سعید، عاطف خان اور شہرام ترکئی کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے خلاف سماعتیں ہوئی، جسٹس اشتیاق ابراہیم، جسٹس اعجاز انور اور جسٹس صاحبزداہ پر مبنی 3 رکنی لارجر بینچ نے ان رہنماؤں کے مقدمے کی سماعت کی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے رہنما پاکستان تحریک انصاف مراد سعید کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا مراد سعید ابھی سرینڈر کرچکے ہیں؟ اس پر وکیل نے بتایا کہ مراد سعید نے ابھی تک سرینڈر نہیں کیا، ان کو جان کا خطرہ ہے، انہیں افغانستان سے بھی دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ ایک بندہ مفرور قرار دیا جائے اور وہ قانون کے سامنے سرینڈر نہیں کرتا تو اس پر قانون کیا کہتا ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب بندہ قانون کے سامنے پیش ہی نہیں ہوتا تو اس کے کاغذات کیوں منظور کیے جائیں؟ وہ کل پھر منتخب ہو کر ’قانون سازی‘ کرے گا؟
دوران سماعت جسٹس اعجاز انور نے دریافت کیا کہ کیا مفرور مختیار نامے کے ذریعے کاغذات نامزدگی داخل کر سکتا ہے؟ جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے ریمارکس دیے کہ ریٹرننگ افسر نے دو وجوہات پر مراد سعید کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے، ایک یہ کہ وہ مفرور ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا نام شیڈول فور میں شامل ہے۔
جسٹس اعجاز انور کا کہنا تھا کہ اب تو بیلٹ پیپر کی چھپائی کا مرحلہ ہے، اس مرحلے پر کیا عدالت اس میں مداخلت کر سکتی ہے؟
جسٹس اعجاز انور نے بتایا کہ اعظم سواتی کیس میں مختیار نامے پر اعتراض اٹھائے گئے ہیں۔
بعد ازاں اعظم سواتی کے وکیل نے ایڈووکیٹ جنرل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل نگران حکومت کے نمائندے ہیں، ان کا کام صاف و شفاف الیکشن کا انعقاد ہے، یہ کیسے اس پر بات کر سکتے ہیں؟
جسٹس اعجاز انور ایڈووکیٹ نے اعطم سواتی کے وکیل کو بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل کو عدالتی معاونت کے لیے ہم نے ہی طلب کیا ہے، اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جب بندہ مفرور ہوتا ہے تو کچھ بنیادی حقوق کھو دیتا ہے، ان کے نام شیڈول فور میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ لیکن یہ تو پھر کسی کو بھی الیکشن سے روکنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 9 مئی واقعات میں نامزد ملزمان کے کیسز ملٹری کورٹ میں چل رہے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما کے وکیل نے جواب دیا کہ 9 مئی سے پہلے سے ہی مراد سعید منظر عام سے غائب ہیں، انہوں نے صدر پاکستان اور چیف جسٹس کو بھی سیکیورٹی کے لیے خط لکھا ہے۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ پنجاب میں تو لوگوں نے سرینڈر کیا ہے، خواتین بھی جیل میں ہیں لیکن یہاں پر سرینڈر نہیں کیا گیا۔
مراد سعید کے وکیل نے دلائل دیے کہ میرے مؤکل کے خلاف کوئی اعتراض نہیں تھا، صرف مفرور ہونے پر کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے، ٹربیونل نے باقی تمام مفرور امیدواروں کے کاغذات منظور کیے ہوئے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے دریافت کیا کہ ٹربیونل نے کتنے مفرور امیدواروں کے کاغذات مسترد کیے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے انہیں آگاہ کیا کہ جتنا مجھے پتہ ہے صرف مراد سعید کے کاغذات مسترد کیے گیے ہیں۔
اس کے بعد عدالت نے مراد سعید کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
بعد ازاں اعظم سواتی کے کاغذات کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، اعظم سواتی کے وکیل نے بتایا کہ ریٹرننگ افسر نے اعظم سواتی کے کاغذات دو وجوہات پر مسترد کیے، پہلا یہ ہے کہ اعظم سواتی مفرور ہیں اور دوسرا یہ کہ ان کے دستخط جعلی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اعظم سواتی نے ٹکٹ واپس کردیا ہے، وہ الیکشن نہیں لڑرہے ہیں۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ ہم پھر کیوں کیس سن رہے ہیں؟ ہم آرڈر میں لکھ دیں گے کہ کاغذات نامزدگی واپس لینے کی بنیاد پر اعظم سواتی کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔
عدالت نے مزید کہا کہ یہ آرڈر صرف 2024 کے عام انتخابات کے لیے ہوگا۔
بعد ازاں پی ٹی آئی رہنما شہرام ترکئی اور عاطف خان کے کاغذات منظوری کے خلاف کیس پر سماعت ہوئی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ جن کے کاغذات منظور ہوئے ہیں ان کے خلاف کیس نہیں لڑ رہے، بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق مفرور الیکشن نہیں لڑ سکتا ہے، عدالتوں کو سرینڈر نہیں کرتے تو کیسے عوام کی نمائندگی کر سکتے ہیں؟
میاں عزیز الدین ایڈووکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ کوئی پتہ نہیں، وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟
ان کے جواب میں عاطف خان اور شہرام ترکئی کے وکیل نے کہا کہ وہ زندہ ہیں، مجھے فیس بھیج چکے ہیں۔
جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب یہ بتادیں کہ آپ الیکشن لڑرہے ہو اور پولیس آپ کے گیٹ پر کھڑی ہو تو آپ کیا کریں گے؟
اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے دلیل دی کہ پی ٹی آئی کے سینکڑوں رہنما سرینڈر کرچکے ہیں یہ کیوں نہیں کرتے؟ مفرور کا جو اعتراض اب اٹھایا ہے یہ تو تھا ہی نہیں، اب ان کا یہ کیس نہیں بن سکتا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے تمام مفرور امیدواروں کے کاغذات مسترد کردیے ہیں، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہمارے سامنے نہیں ہے، ہم خود فیصلہ کریں گے۔
عاطف خان اور شہرام ترکئی کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن ٹربیونل نے کاغذات منظور کیے، اب اگر کاغذات مسترد ہوتے ہیں تو الیکشن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، سپریم کورٹ نے واضح کہا ہے کہ الیکشن میں کسی قسم کا تاخیری حربہ استعمال نہ کیا جائے۔
بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے شہرام ترکئی اور عاطف خان کے کاغذات درست قرار دے دیے۔
پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے محفوظ فیصلہ سنایا، عدالت نے شہرام ترکئی اور عاطف خان کے کاغذات منظوری کے خلاف درخواستیں خارج کردی