لگژری اشیا کی درآمد پر عائد پابندی میں نرمی کردی گئی

وفاقی بجٹ برائے سال 23-2022 کی منظوری کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں حکومت نے ایک کھرب 93 ارب روپے کی ضمنی گرانٹس کی منظوری دے دی اور گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کے پیش نظر درآمدی بل کو کم سے کم رکھنے کے لیے 3 ہفتے قبل غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درامد پر عائد کردہ پابندی میں نرمی کر دی۔

ڈان کے مطابق یہ فیصلے وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل کی زیر صدارت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں کیے گئے۔

اجلاس کے دوران قومی وبائی ایمرجنسی کا اعلان نہیں کیا گیا جب کہ ملک میں جانوروں میں لمپی اسکن کی بیماری پھیل رہی ہے جس سے عالمی سطح پر منفی رد عمل سامنے آنے کے علاوہ 80 ارب روپے سے زیادہ کا ممکنہ معاشی نقصان ہونے کے خدشات ہیں۔

اجلاس میں 5 ضروری اشیا اور آٹے کے لیے سبسڈی اسکیم کو جاری رکھنے پر اصولی اتفاق کیا گیا لیکن اس سبسڈی کی لاگت جس کا تخمینہ 70 ارب روپے سے زیادہ ہونے کا امکان ہے اس کی باضابطہ منظوری نہیں دی۔

ای سی سی نے غیر ملکی زرمبادلہ کے بڑے پیمانے پر بہاؤ کو روکنے کے لیے غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درآمد پر 19 مئی کو لگائی گئی پابندی میں بھی ایک دفعہ کے لیے نرمی کی۔

اجلاس کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ای سی سی نے 19مئی کے تحت بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی اشیا اور درآمدی سامان کی اجازت کے لیے ایک بار کی خصوصی اجازت دی۔

ای سی سی کی جانب سے یہ خصوصی اجازت صرف ان کنسائنمنٹس کے لیے دی گئی ہے جو 30 جون 2022 یا اس سے قبل پاکستان کی بندر گاہوں پر یا ہوائی اڈے پر اتری تھیں۔

وزارت تجارت نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی درخواست پر یہ سفارش پیش کی تھی کہ ان کنسائنمنٹس پر پابندی میں نرمی کی جائے جو بھیجے جانے کے لیے تیار تھیں لیکن مال برداری کی سہولیات کے مسائل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئیں اور اسی دوران 19 مئی کو پابندی عائد کردی گئی۔

ایف پی سی سی آئی نے متعلقہ احکامات کے نفاذ کو موخر کرنے یا ہیلڈ اپ/ان-ٹرانزٹ کنسائنمنٹس کو جاری کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ اس دوران کاروباری ادارے اپنی کاروباری حکمت عملی کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کچھ وقت حاصل کرسکیں۔

رپورٹ کیا گیا تھا کہ درآمدی اشیا کے ایسے کئی کنسائنمنٹس یا تو پاکستان پہنچ چکی ہیں اور بندرگاہوں پر موجود ہیں یا جلد ہی ملک میں پہنچنے والی ہیں۔

وزارت تجارت نے بتایا کہ وزیر خزانہ کی زیرصدارت ایک میٹنگ میں اس سے قبل ہی اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ اس طرح کی کنسائنمنٹس کو ایک بار جاری کرنے کی اجازت دی جائے۔

اسی طرح ای سی سی نے لکڑی کے درآمد کنندگان کے مشکل کیس کی وجہ سے لکڑی کی درآمد پر کچھ شرائط کو 31 اگست تک معطل کرد یا اس صورت میں کہ اگر ان کی کنسائنمنٹ کئی مہینوں قبل کیے گئے معاہدوں کے تحت بندرگاہوں پر پہنچ چکی ہیں۔

پاکستان ٹمبر مرچنٹ گروپ اور آل پاکستان ٹمبر ٹریڈرز ایسوسی ایشنز نے پابندی میں نرمی کے لیے وزارت تجارت اور وزارت خزانہ کے ساتھ اعلیٰ سطح پر میٹنگز کی تھیں۔

محکمہ کسٹمز نے اطلاع دی تھی کہ لکڑی کے تقریباً 224 کنٹینرز ملک کی مختلف بندرگاہوں پر پہنچ چکے ہیں۔

قومی امراض ایمرجنسی

وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ (ایم این ایف ایس آر) نے پاکستان میں مویشیوں میں پائی جانے والی لمپی اسکن بیماری کے باعث قومی وبائی ایمرجنسی کے اعلان کی سفارش کی اور ارب 80 ارب 4 کروڑ روپے کے ممکنہ معاشی نقصان کے خدشات کے پیش نظر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ذریعے بیماری سے لڑنے کے لیے 3 ارب 8 کروڑ روپے کے فنڈز جاری کرنے کی بھی تجویز دی۔

سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ای سی سی نے تفصیلی بحث کے بعد ایم این ایف ایس آر کو متعلقہ صوبائی سیکریٹریز اور این ڈی ایم اے کے ساتھ میٹنگ کے بعد لاگت کو شیئر کرنے کا منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی۔

جانوروں اور مویشیوں کی مقامی نسلوں کے مقابلے غیر ملکی نسلیں لمپی اسکن نامی بیماری کے لیے زیادہ حساس ہیں۔

ایم این ایف ایس آر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اگرچہ لمپی اسکن بیماری سے ہونے والی اموات کی شرح اس وقت صرف ایک فیصد ہے لیکن یہ 5 فیصد تک جا سکتی ہے، اس کے باعث ہونے سے معاشی نقصانات میں دودھ اور گوشت کی پیداوار میں کمی، جانوروں میں اسقاط حمل، بانجھ پن، کمزوری، کھال کا نقصان، جانوروں کی مصنوعات کی برآمد پر تجارتی پابندیوں کے ساتھ کسانوں، لائیو اسٹاک سے وابستہ شہریوں کے مالی نقصان کے علاوہ ملک میں دودھ کی سپلائی چین کے متاثر ہونے کے خدشات ہیں۔

اجلاس نے پاکستان میں نیکسٹ جنریشن موبائل سروسز (این جی ایم ایس) کے لیے اسپیکٹرم کی نیلامی کی نگرانی کے لیے ایک آکشن ایڈوائزری کمیٹی بھی تشکیل دی۔

14 رکنی کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات کریں گے، اس کمیٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، اقتصادی امور، بجلی و تجارت کے وزرا کے علاوہ خزانہ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور قانون و انصاف کے سیکرٹریز، ٹیلی کام ریگولیٹر، جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں