ممتاز عالم دین اور جامعہ دارالعلوم کے نائب مہتمم مفتی تقی عثمانی نے افغان طالبان سے لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کی اجازت دینے اور لڑکیوں کے لیے اسکول کھولنے کی اپیل کی ہے۔
طالبان نے 23 مارچ کو سیکنڈری اسکولوں کی طالبات کے اسکول دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن اسی دن جب وہ 7 ماہ بعد پہلی بار کلاس رومز میں واپس آرہی تھیں تو طالبان قیادت نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے یونیفارم کو افغان رسم و رواج، ثقافت اور شریعت کے مطابق ڈیزائن کیے جانے تک لڑکیوں کے اسکول بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان سربراہ نے اس فیصلے کو ویٹو کر دیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ تاحکم ثانی اسکول بند رہیں۔
تاہم اب طالبان کے تمام دھڑوں میں یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے مفتی تقی عثمانی نے طالبان کے سربراہ شیخ ہیبت اللہ کو خط لکھ کر لڑکیوں کے اسکول کھولنے کی درخواست کی ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے خط میں کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم اس وقت ایک اہم مسئلہ ہے جسے امارات اسلامیہ کے دشمنوں نے ایک پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے، امارات اسلامیہ نے اب تک خلوص نیت سے جو دانشمندانہ اقدامات کیے ہیں ہم ان کی قدر کرتے ہیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ شرعی احکام کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مناسب انتظامات ضروری ہیں۔
انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک ملک کے لیے تعلیم یافتہ خواتین کا ہونا ضروری ہے تاکہ خواتین کے مسائل بشمول علاج، تعلیم اور فلاحی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے مرد اور عورت کے مخلوط معاشرے کی برائی کو ختم کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام یا امارات اسلامیہ خواتین کے خلاف ہیں، تاہم خواتین کے لیے ایسے تعلیمی انتظامات کی ضرورت ہے جو مردانہ تعلیم سے الگ ہو۔
سعودی عرب کے شہر جدہ کی انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکن مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ انہوں نے سنا ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کے اداروں کے لیے مطلوبہ جگہ دستیاب نہیں ہے لیکن اس کا حل یہ نکالا جاسکتا ہے کہ ایک ہی عمارت میں مرد اور خواتین کے لیے الگ الگ وقت کا انتظام کیا جائے یا پھر مرد کے لیے الگ اور خواتین کے لیے دوسرا گوشہ ہونا چاہیے، اس سلسلے میں باہمی مشاورت سے کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔
دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے جید عالم دین نے مزید کہا کہ اس پروپیگنڈے کو عملی طور پر مسترد کرنا اہم مقاصد میں سے ایک ہے، لہٰذا شرعی حدود میں رہتے ہوئے دشمن کے پروپیگنڈے کو رد کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
طالبان کی پچھلی حکومت میں جج کے طور پر کام کرنے والے شیخ فقیر اللہ فائق نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ افغانستان میں بہت سے علما لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں۔
پاکستان میں مقیم 16 سینئر افغان علما کے ایک گروپ نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت میں طالبان قیادت کو ایک خط لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔
طالبان کی جانب سے لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کا فیصلہ واپس لیے جانے کے بعد 25 مارچ کو امریکا نے قطر میں طالبان کے ساتھ طے شدہ مذاکرات منسوخ کر دیے تھے۔