لوگوں کو نامعلوم نمبروں سے فون آتے ہیں کہ یہ نہیں کہنا وہ نہیں کہنا، عمران خان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے اور نامعلوم نمبروں سے فون آتے ہیں کہ یہ نہیں کہنا اور وہ نہیں کہنا مگر شعور کی بیداری کا جو جن بوتل سے نکل چکا ہے وہ اب واپس نہیں جائے گا۔

اسلام آباد میں ‘عدلیہ کی آزادی’ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کی فہرست میں ہم 130 نمبر پر ہیں جبکہ سوئٹزرلینڈ پہلے نمبر پر ہے اور اس کا صرف ایک ہی کمال ہے کہ وہاں زبردست پہاڑ ہیں جہاں لوگ سیر اور سیاحت کے لیے آتے ہیں اور پیسہ بھی اس لیے کماتا ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی ہے۔عمران خان نے کہا کہ ہمارے یہاں پہاڑ سوئٹزرلینڈ سے دوگنے اور خوبصورتی بھی بہترین ہے لیکن سوئٹزرلینڈ صرف پہاڑوں کی سیر اور سیاحت سے سالانہ 60 ارب ڈالر کماتا ہے، وہ اس لیے اتنے پیسے نہیں کماتا کہ خوبصورتی زیادہ ہے بلکہ وہاں قانون کی حکمرانی ہے کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ میں عدالتیں انصاف کرتی ہیں جبکہ ملک کا قانون اور نظام عام شہری کو طاقت ور سے مکمل طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے اسی طرح جب کمزور انسانوں کو ان کا ملک انصاف اور تحفظ کرتا ہے تو وہ آزاد ہوتے ہیں۔

’بڑے کام صرف آزاد انسان ہی کر سکتے ہیں‘

عمران خان نے کہا کہ بڑے کام صرف آزاد انسان ہی کر سکتے ہیں، غلام ملک میں بھی اگر کوئی انسان آزاد ہو تو اس ملک میں بھی وہ انسان اوپر چلا جاتا ہے، میں ہمیشہ غلام بھارت میں بڑے ہونے والے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی بات کرتا ہوں کیونکہ گزشتہ 500 برس میں کوئی ایسا مسلمان نہیں تھا، جس کا ذہن علامہ اقبال جیسا ہو جبکہ قائد اعظم برٹش انڈیا میں سب سے قابل وکیل سمجھے جاتے تھے جو آزادی کی بات کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایجادات صرف آزاد ذہن کرتے ہیں، غلام ذہن صرف اچھا غلام بنتا ہے اور میں جب حقیقی آزادی کی بات کرتا ہوں تو وہ آزادی بھی مختلف قسم کی ہے جبکہ آج میں جس آزادی کی بات کررہا ہوں وہ عدلیہ کی آزادی ہے جو قانون کی حکمرانی پر عمل دآرمد کرکے لوگوں کو طاقت ور کے ظلم سے آزاد کرتی ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان اور قبائلی علاقے ہمیشہ اپنی آزادی کے لیے اس لیے لڑتے ہیں کیونکہ وہ آزاد رہے ہیں ان کا جرگہ سسٹم ان کو انصاف فراہم کرتا ہے اور مقامی حکومت بھی بن جاتی ہے، اس لیے قبائلی لوگ 80 برس تک انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے مغربی یورپی ممالک دیکھے ہوئے تھے اس لیے میں بہت پہلے اس نتیجے پر پہنچ گیا تھا کہ ہمارے ملک میں جب تک انصاف کا نظام ٹھیک نہیں ہوتا ترقی نہیں کر سکتے، حالانکہ ہمارے پاس بہت قدرتی وسائل ہیں ہم صرف سیاحت اور زراعت سے ہی بہت ترقی کر سکتے ہیں۔

’حکومت کینسر کا علاج ڈسپرین سے کر رہی ہے‘

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کینسر کا علاج ڈسپرین سے کر رہی ہے جبکہ قرضوں کا کینسر پھیلتا جا رہا ہے، اس لیے جب تک اس ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہوتی، جس کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے اس وقت تک ہم ترقی نہیں کر سکتے۔

عمران خان نے کہا کہ یہاں قانون کی حکرانی نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ کار ڈرتے ہیں، اگر ایک کروڑ پاکستانیوں میں سے 20 لاکھ پاکستانی سرمایہ کاری کرلیں تو پاکستان کو کسی سے بھی پیسے لینے کی ضرورت نہیں نہ ہی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہے مگر اس لیے سرمایہ کاری نہیں کرتے کہ اگر وہ کہیں پھنسے تو عدالتوں سے انصاف ملنے کا کوئی اعتماد نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب میں شوکت خانم ہسپتال اور پاکستان تحریک انصاف کے لیے سمندر پار پاکستانیوں سے پیسے لیتے تھے تو وہ ہمشیہ کہتے تھے کہ انہیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر پاکستان میں صرف ایک پلاٹ بھی لیں تو بھی قبضہ ہو جائے گا تو یہاں فیکٹری کون لگائے گا کوئی کاروبار کیسے کرے گا، وہ جا کر دبئی میں کاروبار کریں گے کیونکہ یہاں قبضہ مافیا بھی سمجھ گئے ہیں کہ کون سا پلاٹ سمندر پار پاکستانیوں کا ہے تاکہ وہ قبضہ کرلیں۔

عمران خان نے مزید کہا کہ ہم جس مستقبل کی طرف جا رہے ہیں تو جب تک ہم ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں کرتے ملک کو دلدل سے نہیں نکال سکتے اور معیشت بھی اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جن تک ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوتی۔

شہباز گِل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہباز گِل کو بغیر وارنٹ دکھائے اغوا کیا گیا اور بعد میں اس پر تشدد کرکے برہنہ تصاویر بنائی گئیں تو اس کی اجازت کس مہذب معاشرے میں ہوتی ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مجھے بھی پتا نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے مگر شہاز گل نے مجھے فون کرکے بتایا کہ میں نے ٹی وی پر ایک انٹرویو میں بات کی ہے جو کچھ متنازع ہے، جس پر میں نے ان کو کہا تھا کہ غیر قانونی کمانڈ پر سب بات کرتے رہتے ہیں جبکہ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اصغر خان کا کوئی کیس تھا، جس میں عدالت بھی وہی باتیں کر رہی تھی تو اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا کہ پہلے اغوا کرکے پھر تشدد کرو۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ شہباز گِل ایک کالج میں پروفیسر ہے، جس پر تشدد کرکے ذہنی طور پر کمزور کیا گیا تو ان کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی، ان کے اہل خانہ کیا سوچتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے مگر جو تشدد کر رہے تھے ان کو قانون کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ احستاب ہوگا۔

’لازم ہے کہ ہم اپنے ملک میں جدوجہد کریں’

انہوں نے کہا کہ جب شہباز گِل کو خاتون مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور ان کو معلوم تھا کہ تشدد کیا گیا ہے جو آج ثابت ہوگیا، جس کی عدالت میں رپورٹ بھی پیش کی گئی ہے مگر پھر بھی ان کو ریمانڈ پر پولیس تحویل میں دے دیا گیا۔

آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بات کا ذمہ دار کون ہے کہ ایک آدمی کو اٹھا کر آپ نے اس پر تشدد کیا تو قانون اس کی اجازت کہاں دیتا ہے لیکن میں کہہ رہاں ہوں کہ قانونی کارروائی کریں گے، وہ کہتے ہیں دہشت گرد ہے، پہلے وہ غلط کام کرتے ہیں اور جب ہم ان پر قانونی کارروائی کی بات کرتے ہیں تو ہم پر دہشت گردی کا پرچہ درج کرلیا۔

عمران خان نے کہا کہ ان تمام چیزوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں قانون کی نہیں طاقت کی حکمرانی ہے جو طاقتور ہے، وہ قانون سے بالاتر ہے اور جو کمزور ہے اس کی حفاظت قانون نہیں کرتا، اس لیے یہ لازم ہے کہ ہم اپنے ملک میں جدوجہد کریں کیونکہ یہ پاکستان کے مستقبل کی جنگ ہے اور انصاف کی تحریک ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے ہے جو ملک کا مستقبل ہے۔

’معاشی تباہی سے بچنے کے لیے قانون کی حکمرانی‘

عمران خان نے کہا کہ اگر اس ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوئی تو کوئی طریقہ ہی نہیں کہ ہم معاشی تباہی سے بچ سکیں، جس کا کسی کے پاس جواب نہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک بڑا جینیس آیا تھا شہباز شریف مگر لوگوں نے محسوس ہی نہیں کیا کہ وہ صرف اشتہاروں میں ہی جینیئس ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب معیشت سکڑ رہی ہے، کسان پریشان ہیں، کوئی ترقی نہیں ہو رہی، دولت میں اضافہ نہیں ہو رہا تو ہم کس طرح قرضے واپس کریں گے کیونکہ باہر سے آنے والی ترسیلات بھی بند ہوگئیں، فیکٹریاں بند ہوگئیں ہیں تو کیسے دولت میں اضافہ ہوگا۔

سندھ میں حکمرانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ میں کون سی جمہوریت ہے جہاں لوگ بلدیاتی انتخابات میں کھڑے نہیں ہو سکتے اور 15 فیصد لوگوں کو بلا مقابلہ کامیاب کردیا گیا کیونکہ مخالفین پر مقدمات بنا کر انہیں کھڑا ہونے سے روکا گیا۔

’شعور کی بیداری کا جو جن بوتل سے نکل چکا ہے‘

انہوں نے کہا کہ مجھ پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا، اگر میں کوئی عام شہری یا شہباز گِل ہوتا تو ابھی تک اٹھا کر وہی کرتے جو شہباز گِل کے ساتھ کیا گیا ہے مگر جس دن ہمارے ملک میں انصاف کا نظام ہوگا تو جو اس طرح دہشت گردی کا مقدمہ درج کرے گا، سب سے پہلے عدالت اس سے سوال کرے گی کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی۔

عمران خان نے کہا کہ مجھے کہتے ہیں کہ مفاہمت کرکے چلیں، سمجھوتہ کریں، سیاسیت میں سمجھوتہ ہوتا ہے مگر بدعنوانی اور کرپشن پر نہیں، جس طرح پرویز مشرف نے این آر او دیا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کا نقصان ملک کو کتنا ہوا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کس طرح کرپشن کے دروازے کھلے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے، میڈیا کی آواز بند کی جا رہی ہے، نامعلوم نمبروں سے فون آتے ہیں کہ ہم ایجنسیوں سے فون کر رہے ہیں کہ یہ نہیں کہنا وہ نہیں کہنا مگر خوش آئند بات ہے کہ شعور کی بیداری کا جو جن بوتل سے نکل چکا ہے وہ اب واپس نہیں جانا کیونکہ یہ اب ملک کو حقیقی آزادی کی طرف لے جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں