لوئر دیر میں محکمہ انسداد دہشت گردی نے تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی کی گاڑی پر حملے کے الزام میں ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا۔رپورٹ کے مطابق ایم پی اے کی گاڑی پر حملے میں ہلاک ہونے والے چاروں افراد کو اتوار کے روز ان کے آبائی قبرستانوں میں سپرد خاک کردیا گیا۔ان کے رشتہ داروں نے بتایا کہ زخمی رکن صوبائی اسمبلی ملک لیاقت علی خان کو اتوار کے روز پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے اسلام آباد کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا۔
انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے میں کرفیو کے نفاذ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں اور ان کے ہینڈلرز کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔
ہفتہ کی رات دیر گئے اپنے آبائی شہر میں رکن اسمبلی کی گاڑی پر حملے کے نتیجے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت 4 افراد جاں بحق اور 3 زخمی ہوگئے تھے، ملک لیاقت ہفتے کی رات ناگوتل میدان میں جنازے میں شرکت کے بعد گھر واپس جارہے تھے کہ نامعلوم حملہ آوروں نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
ملک لیاقت کے بھائی جہان عالم، ان کا بھتیجا یاسر، پولیس کانسٹیبل نصیر اور لیویز سپاہی بچہ راون موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے۔
ایم پی اے کے علاوہ ان کے ساتھی محمد شعیب، حذیفہ اور شاکرین شدید زخمی ہوگئے تھے۔
حملے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا تاہم ملزمان اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
زیمدرہ تھانے کے ترجمان نے بتایا کہ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جبکہ بختفور نامی ایک مشتبہ شخص کو محکمہ انسداد دہشت گردی نے حراست میں لے لیا ہے، اسے پوچھ گچھ کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری نے جائے وقوع کا دورہ کیا اور فاتحہ خوانی کی۔
اتوار کو ایم پی اے کے دو رشتہ داروں کو گال میدان میں سپرد خاک کر دیا گیا، ان کی نماز جنازہ کے دوران رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔
مقامی لوگوں نے حکومت سے قاتلوں کو گرفتار کرکے عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
لوئر دیر کے ڈپٹی کمشنر محمد زبیر اور ضلعی انتظامیہ کے متعدد افسران نے حملے میں جاں بحق ہونے والے لیویز سپاہی بچہ راون کی اوچ کرکٹ اسٹیڈیم میں نماز جنازہ میں شرکت کی۔
ڈپٹی کمشنر نے ان کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔
انہوں نے اہلکار کے لواحقین سے بات کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ قاتلوں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
میدان، تحریک نفاذ شریعت محمدی کے بانی مولانا صوفی محمد کا آبائی شہر ہے، یہ 2009 میں تحریک طالبان پاکستان کے کنٹرول میں رہا ہے۔
گو کہ فوجی کارروائی کی بدولت علاقے کو عسکریت پسندوں سے پاک کردیا گیا تھا لیکن رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ افغانستان فرار ہوگئے تھے اور وہاں سے خطے میں امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے انسپکٹر جنرل پولیس کو ملزمان کی فوری گرفتاری کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
واقعے کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے اسے ایک بزدلانہ فعل قرار دیا اور کہا کہ مجرم قانون کو چکما نہیں دے سکتے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ واقعے میں ملوث افراد کو جلد گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔