اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا افراد سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت کو آخری موقع دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو وزیر اعظم کو طلب کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو اور دیگر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی حکومت کی جانب سے جبکہ لاپتا افراد کی جانب سے وکلا انعام الرحیم ، ایمان مزاری و دیگر پیش ہوئے۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ بڑا واضح ہے کہ موجودہ یا سابقہ حکومت نے لاپتا افراد کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، سب سے بہترین انٹیلی جنس ایجنسی نے یہ کیس جبری گمشدگی کا قرار دیا ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابقہ حکومت کا تو معلوم نہیں اس حکومت نے معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت صرف آئین کے مطابق جائے گی، بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ہے، بنیادی ذمہ داری وفاقی حکومت اور چیف ایگزیکٹو کی ہے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی نے کہا کہ مانتے ہیں کہ یہ کیسز اس طرح ڈیل نہیں ہوئے جیسے ہونے چاہیے تھے، کابینہ کے سینئر اور متعلقہ لوگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، یقین دہانی کراتا ہوں کہ کابینہ کی کمیٹی ان تمام ایشوز کو دیکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے اگر سابق چیف ایگزیکٹوز سے بیان حلفی طلب کرنے ہیں تو براہ راست طلب کرے، وزارت داخلہ نے بھی کابینہ ڈویژن کو لکھا ہے کہ سابق چیف ایگزیکٹوز کو اپنے بیان حلفی جمع کرانے کا کہیں، پٹشنرز کا احساس ہے، موجودہ حکومت کو تھوڑا وقت دے دیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت کسی کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہتی ہے، جس کے دور میں وہ افراد لاپتا ہوئے وہ ذمہ دار ہیں، وفاقی حکومت کو اگر احساس ہوتا تو لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو عدالت آنے ہی نہ دیتے، خود ان تک پہنچتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلح افواج پر اس طرح کی حرکتوں میں شامل ہونے کا الزام بھی کیوں لگے، یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، یہ معاملہ تو قومی سلامتی سے متعلق ہے۔
کلبھوشن کی اہلِخانہ سے ملاقات کرادی، پاکستانیوں کی کیوں نہیں کرائی جاتی، وکیل
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 2013 کا فیصلہ موجود ہے، یہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے، یا تو کوئی شخص ذمہ داری لے کر ان تمام لوگوں کو بازیاب کرائے، ریاست کا جبری گمشدگی کے کیسز پر جو ردعمل ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ کلبھوشن یادیو کو اس کی فیملی سے ملاقات کرائی جاتی ہے تو پاکستانی شہریوں کو یہ سہولت کیوں نہیں دی جاتی۔
دوران سماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ میں ثبوت دوں گا کہ ریاست کی ایجنسیاں جبری گمشدگی میں ملوث ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ آئی ایس پی آر نے 2019 میں کہا تھا کہ تمام نہیں لیکن کچھ لاپتا افراد ہمارے پاس ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے جی ایچ کیو میں ایک سیل بنایا ہے اور ان کو اس میں رکھا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فرحت اللہ بابر صاحب، منتخب حکومت اور پارلیمنٹ نے کیا کیا ہے، یہ تو آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ سویلین کنٹرول اور نگرانی نہیں ہے۔
آئین کی کسی کو پروا نہیں اس لیے لوگ متاثر ہو رہے ہیں، عدالت
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ آئی ایس آئی صرف حکومت کا ایک ڈپارٹمنٹ ہے اور براہ راست وزیر اعظم کے کنٹرول میں ہے، عدالت پبلک آفس ہولڈرز کو اپنی ذمہ داری شفٹ کرنے کی اجازت نہیں دے گی، اگر وزیر اعظم کسی بات سے منع کرے تو وہ اسے مانیں گے، جو آئین میں لکھا ہے یہ عدالت صرف اس کو تسلیم کرے گی اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ اور حکومت بے بس ہیں؟
فرحت اللہ بابر نے چیف جسٹس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جی بالکل، میں یہی کہنا چاہ رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے اندر ریاست ہے؟ جس پر فرحت اللہ بابر بولے جی بالکل۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پھر وزیر اعظم سے کہیں کہ عدالت کے سامنے آ کر یہ بیان دیں، یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے، کیوں ملک کے کسی شہری کو مسلح افواج کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو، باتیں سب کرتے ہیں عملاً کوئی کچھ نہیں کرتا، آئین کی کسی کو پروا نہیں اس لیے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ وزیراعظم کو سمن کریں اور انہیں کہیں کہ عدالت کے سامنے وضاحت کریں، وزیراعظم کو بلانے کے علاوہ کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔
دورانِ سماعت لاپتا افراد سے متعلق تنظیم کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے استدعا کی کہ وزیراعظم کو بلا کر ان کیمرا سماعت کریں، جن کے پیارے لاپتا ہیں ان کو بتائیں کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میرا شوہر زندہ ہے تو کہاں ہے، ان کیمرا سماعت کریں اور ذمہ داروں کو بھی بلائیں، جبری گمشدگیوں کے ذمہ داروں کو شامل کریں تاکہ کچھ نہ کچھ تو ہو۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بتائیں پھر عدالت کس کو طلب کرے، لاپتا افراد سے متعلق بل کہاں ہے؟ وہ تو سینیٹ میں آگیا تھا پھر اس کے بعد غائب ہو گیا۔
عدالت نے وکلا کے نمائندے عابد ساقی کو روسٹرم پر بلا کر استفسار کیا کہ ساقی صاحب، آپ بھی وکلا کی قیادت کرتے ہیں، آپ بتائیں یہ عدالت کیا کرے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، عدالت فیصلہ دینا چاہتی ہے لیکن وفاق کی جانب سے یہ دلائل نہیں دے رہے، یہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور حکومت بھی بے بس ہے۔
عابد ساقی نے کہا کہ پارلیمنٹ کو بے بس تو نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت نہیں کہہ رہی لیکن یہ بتایا جارہا ہے، جے آئی ٹی جن کیسز کو جبری گمشدگی قرار دے چکی ہے ان کو بھی بازیاب نہیں کیا جا رہا۔
عابد ساقی نے کہا کہ عدالت پہلے وزیر داخلہ کو نوٹس جاری کر کے طلب کرے، اگر وہ کچھ نہیں کریں گے تو تاریخ میں لکھا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت تمام منتخب حکومتوں کا احترام کرتی ہے لیکن یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔
عابد ساقی نے کہا کہ وزیراعظم اگر عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں کرتے تو توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ آخری عدالت ہوگی جو ایسا کرے گی، بے بس کوئی نہیں ہے ہر ایک نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے، اگر کوئی بات نہیں مان رہا تو مس کنڈکٹ کی کارروائی ہونی چاہیے، اگر ملٹری کو کوئی شخص ملوث ہے تو اسکا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔
یہ معاملہ ریاست کے اندر ریاست کا ہے، فرحت اللہ بابر
عدالت نے استفسار کیا کہ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کدھر ہیں؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے انہیں عدالت کا آرڈر دکھانا تھا، اگر عمل نہیں کرتے تو توہین عدالت ہو گی۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ معاملہ ریاست کے اندر ریاست کا ہے اور صرف وزیراعظم اس کا جواب دے سکتا ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جبری گمشدگی کے پہلے کمیشن کی رپورٹ بھی شائع ہو جائے تو بڑی بات ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ انہیں پتا ہی نہیں ہے کہ وہ رپورٹ ہے بھی یا نہیں، 8 ہزار یا جتنے بھی لاپتا لوگ ہیں ان کی بازیابی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس استثنیٰ کو کس طرح ختم کیا جائے، تیسرا سوال ہے کہ سویلین کنٹرول کو مضبوط کس طرح کیا جائے، اس کا جواب دیں۔
رہنما پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ میں یہی کہتا ہوں کہ وزیر اعظم کو طلب کریں بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی، وہ پیش ہو کر بتائیں کہ ان کی کیا مجبوریاں ہیں، 20 سال سے جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ہے اب بہت ہو گیا، بے شک یہ سماعت ان کیمرا رکھ لیں لیکن وزیراعظم کو بلائیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان کیمرا کیوں؟ اگر بلانا ہے تو جو وہ کہتے ہیں لوگوں کو بھی پتا چلنا چاہیے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف چند لوگوں کا نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کی سیکیورٹی کا بھی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 22 کروڑ کی حفاظت اس وقت ہو گی جب آئین پر عملدرآمد ہو گا، جب یہ شبہ بھی ہو کہ سیکیورٹی ایجنسیاں جبری گمشدگی میں ملوث ہیں تو اس سے قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب چیف ایگزیکٹو نے اپنی کتاب میں لکھ دیا کہ یہ ریاست کی پالیسی تھی اور اس چیف ایگزیکٹو نے 9 سال تک ملک پر حکومت کی تھی۔
اس دوران وزارت داخلہ کے نمائندے عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور وقت دینے کی استدعا کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون کون سے قانون نافذ کرنے والے ادارے آپ کے ماتحت ہیں؟ وزارت داخلہ کے نمائندے نے بتایا کہ اسلام آباد پولیس، ایف آئی اے اور رینجرز ہمارے ماتحت ہیں۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ انٹیلی جنس بیورو کس کے ماتحت ہیے؟ تو نمائندے نے بتایا کہ وہ وزیر اعظم کے زیر کنٹرول ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کس کے زیر کنٹرول ہے؟ نمائندے نے بتایا کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تو کیا آپ ان سے پوچھتے نہیں ہیں؟ جس پر نمائندے نے کہا کہ ہم پوچھتے ہیں، ان سے رپورٹ طلب کی جاتی ہے جو عدالت کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ عدالت کے سامنے رسمی باتیں مت کریں، اگر حکومت ٹھوس اقدامات نہیں اٹھاتی تو 9 ستمبر کو وزیر اعظم پیش ہوں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آخری موقع دے رہے ہیں اگر کچھ نہ ہوا تو چیف ایگزیکٹو کو طلب کریں گے۔
بعد ازاں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔