الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل واوڈا کی نااہلی کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
فیصل واوڈا کی نااہلی کا تحریری فیصلہ 27 صفحات پر مشتمل ہے جس کے مطابق فیصل واوڈا نے امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن کے پاس جمع نہیں کرایا اور یہ بھی نہیں بتایا کہ کب امریکی شہریت چھوڑی؟
الیکشن کمیشن کا فیصلے میں کہنا ہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت فیصل واوڈا اہل شخص نہیں تھے، آخری سماعت کے وقت فیصل واوڈا کو امریکی شہریت چھوڑنے کی کاپی دکھائی گئی، فیصل واوڈا کو امریکی شہریت چھوڑنے کی پیش کی گئی کاپی کو مسترد کیا گیا۔الیکشن کمیشن کے مطابق فیصل واوڈا نے 7 جون 2018 کو آر او کے پاس غلط بیان حلفی جمع کروایا، فیصل واوڈا کا غلط بیان حلفی آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے زمرے میں آتا ہے، واوڈا کی جانب سے نادرا کا جمع کروایا گیا سرٹیفکیٹ معیار پر پورا نہیں اترتا، فیصل واوڈا نے رکن قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیصل واوڈا رکن اسمبلی کی حیثیت سے حاصل تمام مالی مراعات واپس جمع کروائیں اور عوامی عہدہ رکھنے کے دوران حاصل مالی مراعات واپس جمع کروائیں۔
الیکشن کمیشن نے حکم دیا کہ واوڈا تنخواہیں، ٹی اے ڈی اے، رہائشی اخراجات اور دوسری مراعات واپس جمع کروائیں، واوڈا تمام مالی مراعات دو ماہ کے اندر سیکرٹری قومی اسمبلی کے پاس جمع کروائیں۔
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی کا معاملہ
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین بھی آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تا حیات نا اہل ہوچکے ہیں۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت رکن پارلیمنٹ کو غلط بیانی، غلط حلف، ایماندار امین نہ ہو یا عدالت نے اس کے برعکس قرار نا دیا ہو تو نا اہل ہوگا۔
لیکن 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی کی مدت کی تشریح سے متعلق کیس میں فیصلہ سنایا گیا تھا جس کے تحت یہ نااہلی تاحیات قرار پائی تھی۔
اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے مذکورہ کیس کی 10 سماعتوں کے بعد کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
60 صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے میں کہا گہا کہ ‘جو شخص صادق اور امین نہ ہو اسے آئین تاحیات نااہل قرار دیتا ہے اور جب تک عدالتی ڈیکلریشن موجود ہے، نااہلی رہے گی’۔
عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ ‘آئین کے تحت تاحیات پابندی امتیازی، کسی سے زیادتی یا غیر معقول نہیں بلکہ امیدوار کی اہلیت پر آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت پابندی عوامی ضرورت اور مفاد میں ہے’۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ‘آرٹیکل 62 ون ایف اس لیے ہےکہ دیانتدار، سچے، قابل اعتبار اور دانا افراد عوامی نمائندے بنیں’۔
عدالت کے تحریری فیصلے کے مطابق ‘آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق مسلم اور غیر مسلم دونوں پر ہوگا’۔